حالاتِ حاضرہمضامین

عجب چیز ہے لذت آشنائی

✍: ڈاکٹر طارق ایوبی
ایڈیٹر: ماہنامہ ندائے اعتدال، علی گڑھ

دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر غیر ملکی طاقتیں کبھی ٹھہر نہ سکیں، افغانیوں کی غیرت دینی نے کبھی بھی سپر نہ ڈالی، اس مرتبہ تو اقبال کی بات صد فیصد صادق آئی، امریکہ درجنوں طاغوتی طاقتوں کے اتحاد کے ساتھ چلا تھا ’’مُلّا کو کوہ ودمن سے نکال کر افغانیوں کی غیرت دینی کا علاج کرنے‘‘، مگر مُلّا نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں اپنے بے باکانہ خطاب میں کہہ دیا تھا کہ ’’اے امریکیو! تم آ جائو، میں بھی دیکھتا ہوں تم کس طرح آتے ہو اور جب تم آجائو گے تو اپنا انجام بھی دیکھو گے‘‘، ملا عمر نے اس وقت یہ تاریخی جملہ بھی اپنی زبان سے ادا کیا تھا جو عظیم فاتحین و مجاہدین کے اقوال ماثورہ کے درمیان پوری شان سے تا قیامت چمکتا رہے گا ’’میں مسلمانوں کے لیے اپنی زندگی میں ایسی کوئی چیز چھوڑ کر نہ جائوں گا جو مسلمانوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہو‘‘

اور سچ ہی تو کہا تھا انھوں نے، جب ساری دنیا سے مسلمانوں کی ذلت و شکست کی خبریں آ رہی تھیں تو افغانی ملائوں کو اللہ تعالیٰ فتح و نصرت سے نواز رہا تھا، معرفتِ حق کی لذت سے آشنا ہو کر انھوں نے جو راستہ اختیار کیا تھا اس پہ چل کر وہ منزل مقصود تک پہنچ رہے تھے بلکہ کامیابی کی ایک منزل طے کر رہے تھے، ان کی مومنانہ ٹھوکروں سے عالمی طاقتیں دو نیم ہو رہی تھیں، ان کی ہیبت سے بہت سی جبروتی طاقتوں پر لرزہ طاری ہو رہا تھا، ۲۹؍ فروری ۲۰۲۰ء کو جس وقت دوحہ کے کانفرنس ہال میں نعرۂ تکبیر بلند ہو رہا تھا، اس وقت الہامی شاعر اقبال کے یہ شعر زبان پر ازخود جاری ہورہے تھے ؎
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنھیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحراء و دریا
پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

یہی وہ ’’لذت آشنائی‘‘ ہے جس کے سامنے تیر و تفنگ کی طاقت، افواج کی کثرت، وسائل جنگ کی فراوانی اور دنیا کی ساری مادی حقیقتیں ماند پڑ جاتی ہیں، اس ’’لذت آشنائی‘‘ کی دولت سے سرشار لوگ کبھی کسی کو خاطرمیں نہیں لاتے اور جب وہ اس مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں تو پھر فرشتے بھی ان کی نصرت کو اترتے ہیں، قرآن مجید نے اسی ’’لذت آشنائی‘‘ کے حصول پر زور دیا ہے، یہ لذت آشنائی قران کی زبان میں رہی ’’سکینت‘‘ ہے جو بطور مدد و انعام اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے، جس کے نتیجہ میں انسان بے خوف و خطر بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ ہر آتشِ نمرود میں کود پڑتا ہے، ایمان و یقین کی اس طاقت کے بعد وسائل کی تیاری کی تلقین کی ہے، جدو جہد پر ابھارا ہے اور پھر نصرت کا وعدہ کیا ہے، قانونِ الٰہی میں بدون جدو جہد اور بغیر وسائل کا استعمال کیے نصرت خداوندی کی کوئی گنجائش نہیں، از بدر تا طالبان امریکہ جنگ اسی حقیقت کے مظاہر نظر آتے ہیں.

۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ نے اپنے منصوبہ کے مطابق ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا، پھر بڑی دیدہ دلیری سے جھوٹ بولا اور اس حملہ کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا، القاعدہ نامی تنظیم پر اس کی ذمہ داری ڈالی، طالبان پر انھیں پناہ دینے کی ذمہ داری عائد کی اور ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۱ء کی رات ۹ بجے کابل پر حملہ کردیا، درجنوں طاغوتی طاقتیں تھیں جن کا الائنس بنا تھا، اس الائنس کی سربراہی امریکہ کر رہا تھا اور امریکہ کو اس مرتبہ مملکت خدا داد سے افغانی مسلمانوں کو قتل کرنے کی راہیں دی جارہی تھیں، زمین و فضائی حدود ان کے لیے کھول دی گئی تھیں، بلکہ طالبانی رہنمائوں کو گرفتار کر کے امریکہ کے سپرد کرنے کا کام بھی بہادر پاکستانیوں نے کیا تھا، یہ وہی مملکت تھی جس نے افغانستان میں سوویت یونین کے پرخچے اڑانے اور مدفن بنانے میں بڑا قائدانہ کردار ادا کیا تھا، بس فرق یہ تھا کہ اُس وقت حکمراں وہ تھا جس کو شہید کرانے میں امریکہ نے اپنی عافیت سمجھی تھی اور اِس وقت حکمراں وہ تھا جسے پالنے میں امریکہ نے بڑی تگ و دو کی تھی، جو لبرلزم کے جبروتی ماڈل کمال ترک کو اپنا آئیڈیل کہتا تھا، ایک طرف یہ سب تھا تو دوسری طرف افغانستان کے اندر ایران کے حمایت یافتہ منافقین تھے جو مارِ آستین بنے ہوئے تھے، ان ساری آزمائشوں کے باوجود ’’ملائوں‘‘ نے کسی کی ایک نہ سنی، کسی نے دیوانہ کہا، کسی نے اجڈ کہا، کسی نے گنوار کہا، کسی نے کہا کہ ملا کی ضد اور ہٹ دھرمی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، زندگی اجیرن کردی ہے، راہ چلنا دشوار کردیا ہے، مگر ملائوں کے سامنے حقیقت واضح تھی چنانچہ وہ وقت کی سپر پاور بلکہ ’’احزاب‘‘ سے ٹکرا گئے، وہ جانتے تھے کہ امت ’’وہن‘‘ کی شکار ہے، یعنی دنیا کی محبت میں گرفتا ر ہے اور اس پر موت کا خوف طاری ہے، اس لیے وہ اس طرح کے الزامات دھر رہی ہے، ان کے سامنے وہ بات مجسم حقیقت کے طور پر موجود تھی جو حضرت ابوبکر نے اپنے وظیفہ میں ارشاد فرمائی تھی ’’لا یدع قوم الجہاد فی سبیل اللہ الاخذلہم اللہ بالذل‘‘ (البدایۃ والنہایۃ ۵/۳خلافۃ ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ،) (ترجمہ: جو قوم بھی جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کرے گی اللہ اس کو ذلیل و رسوا کردے گا)

انھوں نے مسلمانوں کی ذلت و نکبت اور پستی و رسوائی کے اس نکتہ اصلی کو سمجھ کر اس پر عمل کو اپنا لائحہ عمل بنا لیا اور حضورؐ کے اس قول کا مصداق بن گئے کہ ’’لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق لا یضرہم من خذلہم حتی یأتی امر اللہ وھم کذٰلک‘‘۔ (أخرجہ مسلم حدیث ۱۹۲۰ء) (ترجمہ: میری امت میں ایک گروہ یا جماعت ہمیشہ ایسی موجود رہے گی جو حق پر کاربند ہوگی اس کا برا چاہنے والے خود ذلیل و رسوا ہوں گے اس جماعت کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے)جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ طاقت کے توازن کا فلسفہ ایک بار پھر جھوٹ ثابت ہوا، تعداد کی قلت و کثرت کے جس فلسفہ کی قرآن نے یہ کہہ کر ہوا نکال دی تھی کہ ’’کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرہ‘‘ (البقرہ آیت۲۴۹) (ترجمہ: بارہا ایسا ہوا ہے کہ قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آ گیا ہے)ان ملائوں کی جہد مسلسل نے اسے پھر حق ثابت کر دکھایا اور دنیا نے کھلی آنکھوں سے احزاب کے فرار کا وہ منظر دیکھا جس کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’سیہزم الجمع و یولون الدبر‘‘۔ (ترجمہ: عنقریب یہ جتھا شکست کھا جائے گا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئیں گے)

امریکہ نے افغانستان پر جو چڑھائی کی تھی اس کا اصل سبب دراصل یہ تھا کہ سوویت یونین کے حصے بخرے کرنے میں امریکہ کا کردار نمایاں تھا، کیونکہ روس کے بعد اب وہ عالمی طاقت بن کر ابھرنے والا تھا، کمیونزم و سوشلزم کا جنازہ اٹھنے کے بعد جب کیپٹلزم کا علمبردار امریکہ سپر پاور بنا تو اس نے دیکھا کہ اس کے نظریہ کو اب مستقبل میں کوئی خطرہ اگر ہے تو اسلام سے ہے، چنانچہ اس نے اسلام کو اپنا دشمن متعین کیا، اس کے لیے یہ بات بھی سوہانی روح تھی کہ اس نے جن افغانی مجاہدین کی روس کے خلاف مدد کی تھی وہی آگے چل کر اس اسلامی نظام کے حامل بن گئے جس نظام کو امریکہ خطرہ سمجھ رہا تھا، کیونکہ اس کو اسلامی مظاہر سے خطرہ نہیں وہ تو اس کے دوست مسلم ممالک میں بہت نمایاں نظر آتے ہیں، افغانستان میں یہ اسلامی نظام قائم ہونے کے بعد اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا امریکہ کی پہلی چاہت اور پہلا فریضہ تھا جس میں بظاہر وہ کامیاب ہوا مگر بالآخر یہ بھی ثابت کیا کہ یہ اسلامی نظام ہی ایک نہ ایک دن غالب آ کر رہے گا۔ ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘‘۔(القمر آیت ۴۵) (ترجمہ: اس نے اپنے دین حق کو برپا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ تمام ادیان پر غالب آ جائے، دشمنوں کو یہ بات چاہے کتنی ہی کَھلے)

اس درمیان لوگوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ امریکہ ہی نے طالبان کو کھڑا کیا ہے: اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس کے خلاف جب افغانیوں کی مسلح جدو جہد شروع ہوئی تو روس کو شکست دینے کے لیے امریکہ نے افغانیوں کی ہتھیاروں کے ذریعہ مدد کی اس وقت سرفروش مجاہدین تو تھے مگر طالبان کے نام سے جماعت وجود میں نہ آئی تھی، تین سال کے بعد امریکہ نے ایک مصالحتی حکومت بالفاظ دیگر اپنی کٹ پتلی حکومت کے قیام کی پیشکش کی، بصورت دیگر امداد روکنے کی دھمکی دی، افغانیوں نے جواب دیا کہ ہمیں مدد کی ضرورت نہیں ہم دشمن کا اسلحہ چھین کر اس پر حملہ کرنا سیکھ چکے ہیں، اس دور کی امریکی امداد کو بنیاد بنا کر یہ کہنا کہ امریکہ نے ہی طالبان کو کھڑا کیا قطعاً درست نہیں، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ امریکہ نے بہت سے گروپ افغانستان کے اندر صرف اس لیے تشکیل دیے کہ طالبان کو خانہ جنگی میں مبتلا کرکے شکست دے سکے، مگر نہ وہ میدانِ جنگ میں شکست دینے میں کامیاب ہوسکا اور نہ اس کا پروپیگنڈہ ہی کامیاب ہوا، چنانچہ جسے پروپیگنڈہ مہم کے ذریعہ بد نام کیا اس سے ہی پوری دنیا کے سامنے معاہدۂ امن کیا۔

یہ مرحلہ جو کم و بیش ۱۸؍ سال پر محیط ہے بڑا سخت جان و جاں گسل تھا، اس مدت میں دنیا نے بڑے تغیرات دیکھے، لمحہ بہ لمحہ حالات بدلتے رہے مگر یہ ’’پر اسرار بندے‘‘ اپنے مشن پر ڈٹے رہے، مبصرین پہلے تو ان کی ضد و ہٹ دھرمی کا راگ الاپتے رہے، پھر ان کو خونخوار دہشت گرد قرار دینے کا پروپیگنڈہ شروع ہوا اور وہ پروپیگنڈہ کچھ اس حد تک کیا گیا کہ دنیا بھر میں ٹوپی، عمامہ اور ڈاڑھی گویا دہشت گردی کی علامت بن گئی، ہمارے وطن عزیز میں ’’طالبانی سوچ‘‘ اور ’’طالبانی صورت‘‘ کہہ کر طعنے دیے جانے لگے، اور اہل دین کو پریشان کیا جانے لگے، بہت سے لوگ تو صفائی بھی دینے لگے، ایک قائد کا ایک مفصل انٹرویو بڑا دلچسپ تھا، ۱۸؍ سال کی مدت کچھ کم نہیں ہوتی، لوگوں نے ان بے چاروں سے رشتہ بھی توڑ لیا، ان کا تذکرہ کرنا بھی چھوڑ دیا، جب ذکر آیا بھی تو ان کو امریکہ کا ایجنٹ قرار دینے کے لیے، غلط قرار دینے کے لیے مگر پھر بالاخر وہ دن بھی آیا جب دنیا کے سپرپاور نے گھٹنے ٹیکے، امن کے معاہدے کی بھیک مانگی، زندہ و سلامت نکل جانے کی دہائی دی، طالبان اہل ایمان تھے ’’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا‘‘ (الانفال آیت۶۱) (ترجمہ: اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجائو) پر عمل کیا اور امن معاہدہ کے لیے تیار ہوگئے، دنیا نے دیکھا کہ کل تک امریکہ جن کو دہشت گرد کہہ رہا تھا آج ان کو ایک باعزت اورمتوازی طاقت تسلیم کرتے ہوئے معاہدہ کر رہا ہے، دنیا مبہوت تھی، طاغوتی میڈیا محوِ حیرت تھا، بہت سے اسلام دشمن پرسکتہ طاری تھا، وہ اس معاہدہ کو ’’صدی کا سب سے خطرناک معاہدہ‘‘ قرار دے رہے تھے، وہ سوچ رہے تھے کہ کل تک جنھیں دہشت گردی کی علامت بنا دیا گیا تھا آج انھیں کس طرح دنیا برابری کی سطح پر تسلیم کر رہی ہے، طالبانی رہنمائوں کی بے نیازی قابل دید تھی.

وہ کمال بے نیازی کے ساتھ اپنے محاذ اور اپنے شرائط پر ڈٹے ہوئے تھے اور امریکہ پورا زور اس پر صرف کر رہا تھا کہ وہ کسی طرح افغانستان سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے، دنیا نے دیکھا کہ وہ ملا عبدالغنی برادر جس کو امریکہ نے ملا عمر کے بعد دنیا کا سب سے خونخوار دہشت گرد قرار دیا تھا، اسی سے صدر امریکہ نے ۳۵؍ منٹ ٹیلی فون پر گفتگو کی اور پھر پریس کانفرنفس میں کہا کہ بہت اچھی گفتگو رہی، یہی نہیں جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان اقتدار میں آ جائیں گے تو ٹرمپ کا جواب تھا کہ اس میں کیا شک انھیں آنا ہی ہے، واقعہ یہ ہے کہ طالبان امریکہ معاہدہ نے مسلمانوں پر لگے دہشت گردی کے داغ کو یکسر دھو دیا ہے، اب امریکہ کے غلاموں کو ’’ملائوں‘‘ کے لیے یہ اصطلاح استعمال کرنے میں محتاط ہونا چاہیے ورنہ آقا ناراض بھی ہوسکتے ہیں۔

امریکہ نے بہت پہلے اس کا اندازہ کرلیا تھا کہ وہ طالبان کو میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتا، چنانچہ آج بھی ۷۰؍ فیصد علاقہ پر طالبان کا کنٹرول ہے اور عوام کی اکثریت طالبان کے ساتھ ہے، بلکہ بہت سے مبصرین کی بات مانیں تو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دو دو کلومیٹر کے صدر ہیں، عوام کے ساتھ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عرصہ کے بعد طالبان کے ذریعہ قائم کیے گئے اسلام کے نظام عدل میں انھوں نے امن و چین کی سانس لی تھی، اس حقیقت کا اظہار وقتاً فوقتاً امریکی فوجی اور دیگر ذمہ داران کرتے رہے، بالآخر ٹرمپ نے تو افغان جنگ کو ’’غلطی‘‘ ہی قرار دے ڈالا اور امریکہ کے وہاں سے نکلنے کے محفوظ راستے ڈھونڈنے میں لگ گیا، اور پھر وہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوا، لیکن ابتدا میں اس نے ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کے بینر سے معاہدہ کرنے پر اعتراض کیا، طالبان نے منہ موڑا اور اپنی کارروائی میں مشغول ہوگئے، امریکہ نے اس نکتہ پر رضامند ہوکر پھر پیشکش کی مگر اس پر اٹک گیا کہ طالبان اسلامی نظام کے بجائے جمہوریت کو حرزجاں بنائیں، طالبان نے اپنی کارروائیاں اور تیز کردیں کیونکہ اسلامی نظام سے دستبرداری کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے.

پہلی بار یہ موقع آیا تھا عرصہ کے بعد کہ طاغوتی طاقتیں براہ راست اسلامی نظام کے قائم کرنے والوں سے برابری کی سطح پر معاہدہ کر رہی تھیں طالبان اچھی طرح جانتے تھے، حقیقی طالبان شریعت الٰہیہ کا بہترین فہم رکھتے تھے اس لیے ان کو معلوم تھا جمہوریت اور اس کے پرفریب عنوانات پر حقیقی عمل تو اسلامی نظام میں ہی ممکن ہے، ورنہ پرفریب عنوان کے پسِ پردہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ جمہوریت کی اصل ہے، امریکہ کی کمر افغانستان میں خرچ کر کر کے اس قدر ٹوٹ گئی تھی کہ وہ بالآخر اس کو بھی مان کرمیز پر آگیا اور خواہش کی کہ مذاکرات میں اس کی کٹ پتلی حکومت کو بھی شامل کرے جو کابل اور اس کے اطراف پر محیط ہے، اس کے پیچھے دراصل امریکہ کی یہ خواہش تھی کہ طالبان حکومت میں اشتراک Power Sharing پر راضی ہوجائیں، مگر طالبان نے صاف منع کردیا کہ ہم غلام و کٹ پتلی حکومت کو معاہدہ میں شریک نہیں کرسکتے، اور پاور شیئرنگ کا کوئی مطلب ہی نہیں ہمارے یہاں، ہم نے جنگ ہی اس لیے کی تاکہ افغانستان میں امن و استحکام اور اسلامی حکومت قائم ہوسکے اور وہ غیر ملکی مداخلت سے پوری طرح آزاد ہوسکے، جبکہ کابل انتظامیہ کو شریک کرنے کا مطلب ہے کہ امریکہ آئندہ بھی افغانستان میں موجود رہے گا جس پر ہم کبھی راضی نہیں ہوسکتے، ہم بات ہی اس وقت کریں گے جب غیر ملکی طاقتیں پوری طرح سے افغانستان سے نکلنے پر آمادہ ہوں، بالآخر معاہدہ طے ہوا، قید یوں کے تبادلے پر مفاہمت ہے، ۱۴؍ ماہ کے اندر امریکیوں کے مکمل انخلا کی شرط طے پائی، طالبان نے جنگ بندی پر معاہدہ کیا، یہ بھی طے پایا کہ امریکہ نہ صرف طالبان پر سے تمام پابندیاں ہٹائے گا بلکہ وہ اقوام متحدہ کے ذریعہ لگائی گئی پابندیاں ہٹوانے کی بھی پوری کوشش کرے گا، یہ بھی طے پایا کہ طالبان و کابل انتظامیہ جلد ہی آپسی مذاکرات سے مسائل کے حل تک پہنچیں گے۔

معاہدہ پر عمل در آمد شروع ہوچکا، جلد ہی طالبان رہنمائوں سے امریکی صدر کی براہِ راست ملاقات کی خبریں گردش میں ہیں، جس وقت معاہدہ پر دستخط ہو رہے تھے دنیا بھر کے تقریباً ۵۰؍ وزرائے خارجہ ہال میں موجود تھے، البتہ بہت سے شریک نہیں بھی ہوئے کیونکہ ان کے سینوں پر تو سانپ لوٹ رہا تھا، اصل مشکل تو محمد بن سلمان اور محمد بن زاید کی تھی جو اپنی سوچ اور اپنی روش اور اسلامی نظام سے تنفر کے سبب اس معاہدہ میں شریک بھی نہ ہوسکے، طالبان اور دوحہ کی کوششوں کی تعریف بھی نہ کرسکے مگر معاہدہ کی تائید کرنا تو ان کی مجبوری تھی، اس لیے کہ مد مقابل فریق ان کا آقا تھا، یہی وجہ ہے کہ بیشتر عرب ممالک کے سرکاری میڈیا میں اس معاہدہ کی تعریف تو کی گئی مگر واضح طور پر آزاد لوگوں کی طرح نہ طالبان کی طویل جدوجہد کو سراہا گیا، نہ یہ کہا جا سکا کہ بالآخر امریکہ کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور نہ ہی دوحہ کی کوششوں کی تعریف کی گئی۔

اس معاہدہ سے ایک نئی ابتدا اور ایک نئی تبدیلی کی امید ہے، اس کے نتیجہ میں دنیا کے سامنے مسلمانوں اور بالخصوص دینداروں کی ایک نئی تصویر بننے کی امید ہے بشرطیکہ وہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں، اس معاہدے کے نتیجہ میں جہاں یہ معلوم ہوا کہ طاقت کا توازن اور وسائل کی قلت کے کوئی معنی نہیں، اصل شے تو وہ جذبہ ہے جس کی قرآن آبیاری کرتا ہے، وہیں یہ حقیقت بھی ایک بار پھر آشکارا ہوگئی کہ ظالم اور ناحق لڑنے والے میدان میں ڈٹ نہیں سکتے، بالآخر انھیں میدان چھوڑ کر جانا ہی پڑتا ہے، کیونکہ انسانی نظریات پر مشتمل جنگ کا وہی حال ہوتا ہے جو انسانی نظریات کا، ان کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے، سو ڈیڑھ سو سال بس، رہے نام اللہ کا، اس کے نام لیوا اور اسلامی نظریہ رکھنے والوں کے لیے بقاء و دوام و استحکام کی بشارت ہے.

تاریخ اس پر شاہد ہے، برطانوی، فرانسیسی، روسی اور اب امریکی استعمار کی تاریخ تازہ مثال ہے، مگر اس کا خطرہ برقرار رہتا ہے کہ استعمار اپنی ایجنسی چھوڑ کر جائے، کیونکہ تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ استعماری طاقتیں جہاں سے جاتی ہیں وہاں اپنی ایجنسیاں اور کالونیاں چھوڑ کر جاتی ہیں، افغانستان کی کابل انتظامیہ اس کی مثال ہے، البتہ طالبان کی امارت اسلامیہ اور اسلامی نظام پر ان کی استقامت سے اس خطرہ کا امکان کم ہوجاتا ہے بلکہ انھوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس سے اس کے امکان بالکل معدوم ہوجاتے ہیں، البتہ خانہ جنگی کا امکان کل بھی تھا، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گا اگر اس سے یہ لوگ ملک کو بچانے میں کامیاب ہوگئے تو پوری امید ہے کہ جلد ہی افغانستان میں امن و ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی اور بہت تیزی سے تبدیلی آئے گی، معاہدہ کی پوری کارروائی کو دیکھتے ہوئے یہ خوش آئند بات بھی سامنے آئی کہ طالبان نے بڑی حد تک اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کیا ہے اور خود کو جدید و سائل سے ہم آہنگ کیا ہے، برخلاف اس کے کہ جب وہ آئے تھے تو جدید وسائل سے بُعد بلکہ تنفر کے سبب سرد جنگ کے محاذ پر پہلے ہی شکست کھا گئے تھے، اس معاہدہ سے ان کی مضبوط سفارت کاری کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے، البتہ سفارت کاری تب ہی مضبوط ہوتی ہے جب آپ زمین پر مضبوط ہوں اور زمینی گرفت و طاقت میں افغانستان میں ان کا کوئی ثانی نہیں، جبر و استبداد کی عادی ظالم طاقتیں اس معاہدہ سے یقینا پریشان ہیں مگر انھوں نے جتنی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اس کے نتیجہ میں ان کو قطعی طور پر اپنے آپ کو دھرم سنکٹ میں نہ ڈالنے کی ترکیبیں سوچنی ہی پڑیں گی، اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہی ہوگا اور جنھیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا تھا انھیں ’’عادل و امن پسند‘‘ تسلیم کرکے تعلقات استوار کرنا ہی ہوگا۔

بعض لوگوں نے اپنے جذبات میں اس معاہدہ کو ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا، ہم یقینا اس سے پورے طور پر اتفاق نہیں رکھتے، مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر امکانات صحیح ثابت ہوئے تو یہ معاہدہ ان شاء اللہ فتح کی بشارت بلکہ فتوحات کی تمہید ثابت ہوگا، ویسے نور بصیرت سے دیکھنا اور بات ہے، عقل و خرد کے پیمانوں پر پرکھنا اور بات ہے، ’’فتح مبین‘‘ کہنا تو قبل از وقت ہوسکتا ہے مگر’’ انا فتحنالک فتحا مبینا‘‘ (الفتح آیت ۱) (ترجمہ: ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی)کا جس پس منظر میں نزول ہوا اس کو سامنے رکھیے تو کچھ اور ہی نظر آتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین سے تعبیر کیا تھا، صلح حدیبیہ وہ معاہدۂ صلح تھا جس میں مسلمانوں نے بہت دب کر صلح کی تھی حتی کہ مسلمانوں کے سامنے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ابو جندلؓ اور ابو بصیرؓ کو مشرکین کے حوالے کرنا پڑا تھا، حضرت عمرؓ نے اس آیت کو سن کر دریافت کیا تھا اے اللہ کے رسولؐ کیا یہ فتح ہے، حضور نے فرمایا: ہاں، ایک اور صحابی (ابن جریر)نے دریافت کیا تو جواب میں حضور کے الفاظ یہ تھے ’’إی والذی نفس محمد بیدہ إنہ لفتح‘‘ ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے یقینا یہ فتح ہے‘‘،

واقعہ یہی تھا کہ یہ معاہدہ فتح کی تمہید تھا، دو سال کے عرصہ میں میں اس سورہ کے تمام وعدے و وعیدیں پوری ہوئیں، مکہ فتح ہوا خیبر فتح ہوا، جنین میں کامیابی ملی، جزیرۃ العرب اسلام کی آغوش میں آیا، جبکہ اس وقت کی صورت حال یہ تھی جب یہ بشارت دی گئی کہ مدینہ پہنچ کر ایک صاحب اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے یہ کیسی فتح ہے؟ ہم کو بیت اللہ جانے سے روک دیا گیا، حتی کہ ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے مقام نحر تک نہ جاسکے، خود حضور کو مقام حدیبیہ پر رکنا پڑا اور معاہدہ کے سبب ہمارے دو مظلوم بھائیوں کو ظالموں کے سپرد کیا گیا، یہ گفتگو نبیؐ تک پہنچی تو فرمایا بڑی غلط بات کہی گئی۔ آگے نبیؐ کا جواب پڑھنے سے قل ۱۸؍ سالہ طویل جنگ، امریکی غرور، امریکہ کے وسائل جنگ، دو دن میں افغانستان کو راکھ میں ملانے کی اس کی دھمکیاں اور اس کے ساتھ پوری دنیا کی ہمدردیاں ذہن میں رکھیے اور یہ بھی ملحوظ رکھیے کہ بالآخر اسی نے جنگ بندی کی دہائی دی، اسی نے معاہدہ امن کی پیش کش کی، وہی خود میدان جنگ سے بھاگ کر مذاکرات پر آمادہ ہوا.

یہ سب ذہن میں رکھ کر حضورؐ کا یہ جواب پڑھیے، حضورؐنے فرمایا: بڑی غلط بات کہی گئی، حقیقت میں تویہ بڑی فتح ہے، تم مشرکین کے عین گھر پر پہنچ گئے، انھوں نے تم کو آئندہ سال عمرہ ادا کرنے کی درخواست کرکے واپسی پر راضی کیا، انھوں نے خود تم سے جنگ بندی کی درخواست کی، صلح کرنے کی خواہش ظاہر کی، حالانکہ ان کے دلوں میں جس قدر تمہارے متعلق بغض ہے وہ معلوم ہے، اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر غلبہ دیا، کیا وہ دن بھول گئے، جب احد میں تم بھاگے جارہے تھے اور میں تم کو پیچھے سے پکار رہا تھا؟ کیا وہ دن بھول گئے، جب جنگ احزاب میں دشمن تم پر چڑھ آئے تھے اور کلیجے منہ کو آرہے تھے؟‘‘ (بیہقی) اس پس منظر اور حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ کیجئے، عمل پر کمر کسیے، خدا پر اعتماد کیجئے اور اسی سے دعا کیجئے اس کے لیے کیا مشکل کہ وہ ایک معاہدہ کو فتح کی تمہید بنا دے ’’وما ذٰلک علی اللہ بعزیز‘‘ پھر ہم تو جیتے ہی ہیں اس دن کے انتظار میں ’’ویومئذ یفرح المؤمنون بنصر اللہ ینصر من یشاء وھو العزیز الرحیم۔‘‘ (روم آیت ۴-۵) (ترجمہ: اور وہ دن وہ ہوگا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے، نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!