این آرسی نے مسلمانوں کے لیے دعوت کے راستے کھول دیئے
علیم خان فلکی
امت مسلمہ کو اس سے زیادہ شاندار موقع تاریخ نے کبھی نہیں دیا۔ اگرچیکہ انہیں مہلت بہت ملی تھی۔ سنا ہے کہ اورنگ زیب قرآن کریم لکھ کر اپنی کمائی کرتےتھے کبھی سرکاری خزانے سے کچھ نہیں لیتےتھے، خِلجی، تغلق، بہادرشاہ ظفر سے لے کر آخری نواب میرعثمان علی خان تک جتنے لوگ گزرے، تمام نے یقیناً بہت کارنامے کیئے، ہندومسلم یکجہتی اور ان کے درمیان انصاف کی بہترین مثالیں قائم کیں لیکن کبھی کسی نے یہ ذمہ داری محسوس نہیں کی کہ اکثریت کو جو اصل دین سے ناآشنا تھی بلکہ پیاسی تھی ان تک قرآن کی صحیح تعلیمات پہنچاتے، نتیجہ یہ ہوا کہ ملک پر بادشاہت تو مسلمانوں کی رہی لیکن عقیدوں، دلوں اور دماغوں پر برہمنیت کی بادشاہی صدیوں قائم رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صدیوں میں کروڑوں لوگ ذہنی طور پر نہ صرف شودر بن گئے بلکہ اپنی شودریت کی بھی پوجا کرنے لگے۔
جب جب فاشسٹوں نے مسلمانوں پر حملے کیے سارے شودروں نے فاشسٹوں کا ساتھ دیا، خوش ہوئے کیونکہ انہیں لگا کہ برہمن ہی ان کا قائد، محافظ اور ان کے دھرم کا رکھوالا ہے۔ این آرسی نے اب جاکرانہیں نیند سے بیدار کیا ہے۔ اب انہیں تھوڑا تھوڑا کرکے امبیڈکر، پھولے، وامن میشرم، چندرشیکھرآزاد، وی ٹی راج شیکھر کیا کہہ رہے ہیں سمجھ میں آرہا ہے۔ اگرچیکہ این آر سی کے خلاف احتجاج میں وہ مسلمانوں کے ساتھ کہیں بھی شامل نہیں سوائے ان کے صحافیوں اور لیڈروں کے، لیکن اتنا کیا کم ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار وہ فاشسٹوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ فاشسٹوں نے ہندوستان بھر میں این آر سی کی تائید میں جہاں جہاں جلسے جلوس نکالنے کی کوشش کی کسی بھی شودر ذات نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور ان کے جلسے جلوسوں کو ناکام بنادیا، اگرچیکہ فاشسٹوں نے شرکت کرنے والوں کو خوب پیسہ دینے کی کوشش کی۔
اب کئی دلت، ایس سی، ایس ٹی سی، او بی سی کے لیڈر کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں اور برہمن واد کو نہیں مانتے اور نہ مورتی پوچا کو مانتے ہیں، لیکن ان کا پہلا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہیں بھی متحد نہیں ہیں۔ ان کی ہر ذات کے اندر ہزاروں ذاتیں ہیں۔ ہر ذات اپنی ذات کو ایک الگ مذہب تصور کرتی ہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔
اسی کا فائدہ سیاسی پارٹیوں نے اٹھایا۔ ان کے لوکل لیڈروں کا یہ پیشہ بن گیا کہ اپنی ذات کے جتنے ووٹ ہیں ان کو اکھٹا کرکے ان کی قیمت وصول کی جائے۔ ظاہر ہے انہیں مسلمانوں کی حمایت کرنے سے کچھ ملنے والا نہیں تھا۔ مسلمانوں میں اگر کوئی سمجھدار لیڈر ہوتا اور حالات کا رخ سمجھتا تو انہیں پیسہ دے کر اپنے قریب کرسکتا تھا۔
لیکن مسلمانوں کا پیسہ تو شادیوں، عرسوں،تقریبات، اجتماعات یا پھر الکشنس کیلئے تھا۔ دینی جماعتیں اگرچیکہ ان میں دعوت کا کام کررہی تھیں لیکن ان کا زیادہ زور اسلام پہنچانے سے زیادہ اپنے اپنے مسلک اور حُلیوں کو پہنچانا تھا نہ کہ اسلامی اوصاف کو۔ جتنا لٹریچر ان لوگوں میں بانٹا گیا اس کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے خشک موضوعات پرجنہیں خود ہمارے گھروں کے بچے نہیں پڑھ سکتے غیر مسلم کیا خاک پڑھیں گے۔ نتیجہ یہ کہ جس قسم کے لوگ اسلام میں داخل ہونے کے البم دکھا کرچندے وصول کیے جاتے ہیں وہ سارے ان پڑھ اور معمولی پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔
جس اعلی تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام پہنچنا تھا وہ تو دور دور تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ ہم لوگ اپنی شکلوں اور لباس کے معاملے میں سمجھوتہ کرنے تیار ہی نہیں۔ دعوت مارکٹنگ کو کہتے ہیں۔ جب تک سیلزمین شکل، صورت اور پریزیٹیشن سے مہذب اور تعلیم یافتہ نہ لگے اس کو کوئی اندر آنے نہیں دیتا۔ ہاں؛ باہر یہ لوگ کلرکوں، ڈرائیوروں یا واچ مینوں کو ضرور دعوت پہنچا سکتے ہیں۔
ان شودروں کو ذاتوں سے باہر نکالنے کےلیئے امبیڈکر کی طرح بے شمار لوگوں نے اپنی عمریں لگادیں، اب اس کے اثرات رفتہ رفتہ ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اب ان کی سمجھ میں آرہا ہے کہ خود مسلمان بھی انہی کی طرح کبھی ہندو ہی تھے لیکن وہ پہلی قوم تھے جنہوں نے منوواد کو رد کردیا اور اسلام قبول کرلیا کیونکہ اسلام نے انہیں مساوات، حقوقِ انسانی اور حقوقِ نسواں دیئے تھے۔ منوواد کیلئے یہ بغاوت قابلِ قبول نہیں تھی اس لیئے اس نے مسلمانوں سے وہی شدید نفرت شودروں کے دماغ میں بٹھائی جو کسی بھی مذہب چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرلینے والے کےلیئے فطری طور پر پیدا ہوتی ہے۔
لیکن اب شودر یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جنگ اصل میں دھرم کی جنگ ہے۔ قرآن اور منوسمرتی کی جنگ ہے۔ لیکن چونکہ ہزاروں سال سے وہ غلام ابنِ غلام رہے ہیں، ان کا کوئی دھرم اپنا نہیں ہے جو بھی ہے وہ منوواد کے لوگوں نے ان کے ذہنوں میں راسخ کیا ہے، نہ ان کے آباواجداد نے کبھی کوئی مذہب کی کتاب پڑھی ہے اور انہ انہیں مذہب کی کتاب پڑھنے کا حق دیا گیا، اور نہ انہیں ہر مندر میں داخلے کی اجازت دی گئی۔
اور نہ ان کے پاس کوئی ایسا ہیرو ہے جو بادشاہ یا جنگجو سپہ سالاریا بڑا مفکر یا فلسفی یا قائد رہا ہو، ہر بار انہیں چاہے آزادی کی جنگ ہو، چاہے اس سے پہلے بادشاہوں کی جنگیں ہوں، چاہے فسادات کروانا ہو، چاہے ووٹ لینا ہو، ہر بار وہ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا اپنا کام سوائے کسی نہ کسی کے پیچھے چلنے کے کچھ نہیں رہا۔
اب وہ چاہتے تو ہیں کہ اس شودریت سے باہر نکلیں لیکن مرد ذہنی طور پر تیار ہیں، عورتیں نہیں، کیونکہ عورتوں کے دماغوں میں اوہام پرستی، خرافات پر عقیدہ اور کسی نہ کسی خدا یا بڑے انسان کے آگے جھکنا فطرتاً بسا ہوا ہے۔ یہ بہترین وقت ہے کہ مسلمان ان کی طرف بڑھیں، ان کے ساتھ جو ظلم ہورہے ہیں اس کا شعور ان میں پیدا کریں۔ این آر سی کی تحریک نے اب ہر ذات کو یہ پیغام تو دے دیا ہے کہ مسلمان ظلم کے خلاف نہ صرف اٹھ سکتے ہیں بلکہ قیادت بھی صرف مسلمان ہی کرسکتے ہیں۔
انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر مسلمان محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیرو نہ ہوجاتے تو آج وہ بھی شودر ہی رہتے۔ انہیں رسول اللہ کی صحیح تعلیمات بتاتے ہوئے انہیں ان کے حقوق حاصل کرنے ، شودریت سے بغاوت کرنے کی سوچ دینی ہوگی۔ ان کو ہزاروں ذاتوں میں سے باہر نکال کر صرف ایک قوم بننے کی طاقت سوائے اسلام کے کوئی اور نہیں دے سکتا، ورنہ برہمن انہیں اسی طرح بانٹ کر قیامت تک غلام بناکر رکھے گا۔ اور آخری بات، اگر مسلمانوں نے یہ کام فوری نہ کیا تو وہ شودروں سے زیادہ ابتر حالت میں کردیئے جائیں گے۔
لیکن اس کے لیے ہمیں یہ بھی طئے کرنا ہوگا کہ دعوت کیا دیں، کس طرح دیں، اس کا نصاب کیا ہو، یہ بھی طئے کریں کہ اس کام کو مخصوص جماعتوں، مسلکوں ، پہناووں اور خودساختہ عقیدوں سے باہر نکال کر کس طرح کریں۔ کافروں کو اسلام میں لانے سے پہلے، خود مسلمانوں کو اسلام سے خارج کرنے والے فرقے اور علمائِسو کے شکنجوں سے باہر نکلیں۔ ورنہ تاریخ میں اس سے زیادہ سنہری موقع پھر شودروں کو قریب لانے کےلیئے نہیں آئے گا۔