سماجیمضامین

ہم اِس ملک کے شہری!

شاہانہ خانم، حیدرآباد

NRCاورCAAاور نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے لیکن ہم اسے قرآن کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا کو خوبصورت بنانا، دنیا کو برائیوں سے دور کروانا اور دنیا کو ظالموں سے پاک کروانا بھی دین کا اہم حصہ ہے۔

آثار شقاوت کو مٹادیتے ہیں
ایوانِ رعونت کوگرادیتے ہیں
ہمت کے سہارے یہی مجبورعالم
بنیادِ حکومت کوہلادیتے ہیں

آر ایس ایس کے بارے میں ہم کتنا جانتے ہیں؟ اس تنظیم کی بنیادی فلاسفی کیا ہے،دنیا بھر میں اس کی کتنی شاخیں ہیں، مسلم ممالک میں یہ شاخیں کیسے کام کرتی ہیں،اور بی جے پی کے اہم فیصلوں میں اس کا کیا رول ہوتا ہے؟ ایس ایس اپنے آپ کو ایک ثقافتی تنظیم کے طورپر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ ہنگامی صورت حال میں ان کی تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفہ میں 20لاکھ سیوم سوکوں (کارکیوں)کو جمع کرکے میدان جنگ میں لا سکتیں ہے، فوج کوصف بندی اور تیاری میں کئی ماہ درکار ہوتے ہیں وہ یہ بتانے کی کوشش کررہے تھے، کہ آر ایس ایس کی تنظمی صلاحیت اور نظم وضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔آرایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارگناں کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائزکیا جاتا ہے۔

نریندرمودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بین کو شادی کے چندسال بعد ہی چھوڑا دیا تھا۔ اس لئے آر ایس ایس کو پوری لیڈرشب غیر شادی شدہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ آر ایس ایس کے سب سے نچلے پونٹ کو شاکھا کہتے ہیں ایک شہر یا قصہ میں کئی شاکھائیں ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کی پارکوں میں یہ شاکھائیں ڈرل کے ساتھ ساتھ لاٹھی، جوڈو،کراٹے،اور یوگا۔ کی مشق کا اہتمام کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت،جمہوریت مخالف اور فاشز پر ٹکی ہے۔سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس لئے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجائے اس نے 1951میں جن سنگھ اور پھر1980میں بی جے پی تشکیل دی۔

تین نہایت طاقت ورصدورماؤلی چندراشرما،بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ اڈوانی کا قصور تھا کہ2005ء میں کراچی میں اس نے بانی پاکستان محمد علی جناج کوایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا۔آرایس ایس کی تقریباً 100سے زائد شاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی۔ حفاظت یا سکیورٹی کے لئے(دوسرے لفظوں میں غنڈو گردی کے لئے)بجرنگ دل، مزدوروں یا ورکروں کے لئے بھارتیم مزدور سنگھ، دانشوروں کے لئے وچارمنچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لئے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ کے نام سے بھی ایک تنظیم بنائی ہے۔

قرآن کی روشنی سے ہم دیکھتے ہیں کہ NRCاور CAAکیا ہیں؟ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کافروں نے کہا کہ ضرور بضرور ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے، (یہ NRCہے)۔ یا ایسا کرو کہ تم ہمارے دین میں شامل ہوجاؤ۔ (یہ CAAہے)۔ تو اللہ رب العزت نے کہا ہے کہ ہم ضرور بضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔ یہ نتیجہ ہے۔ ان کے بعد ہم تمہیں اس زمین پرآباد رکھیں گے یہ بدلہ ہے۔ یہ اس کے لئے ہے جو میرے حضور کھڑے ہونے اور میری وعید سے ڈرے یہ شرط ہے۔

ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود ہمیشہ خطرے میں رہا ہے، آزادی کے بعدسے تقسیم کا درد جھیلنا اور پھر اس زخم کوہرا رکھتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بناکر ان کے خلاف منصوبہ بند سازشیں کرنا کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ متشدد ہندو تنظمیوں کو چھوڑنے!خود سیکولرازم کے حامیوں نے مسلم کشی کو ترجمیح دی ہے، وہ اگرچہ وعدے اور دعوے میں کچھ بھی ہوں، اس سے کوئی سوال نہیں،اور کتنی عجیب بات ہے کے وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب آدمی خود عوام کے خلاف نئی نئی پالیسیاں نکل کر اس کی شہریت کو ختم کرنے کی سازش کرتا ہے۔

قوانین تو عوام کی بہتری کے لئے ہوتے ہیں مذہبی تفریق،سیاسی وفاداریوں،اور قیادتوں کے بغیر ہی مرد وعورت،بوڑھا،جوان،پڑھا لکھا ان پڑھ محنت کش طبقات سبھی سٹرکوں پہ نکل آئے ہیں عوامی سمندر امنڈآیا ہے یہ ہمارا اتحاد ہی آنے والے سنہرے دور کی آمد ہوگا کیونکہ جب تک ہم اورآپ مل کر پوری ایمان داری کے ساتھ ایک اچھے سماج کی تشکیل نہ کریں اور ظلم اور زیادتی کو برداشت کرنا چھوڑنہ دیں گے تب ہی انقلاب برپا ہوگا۔

ضرورت ہے کہ اب مسلمان غفلت سے بیدار ہوجائے ورنہ حالات کی نزاکت کچھ اور ہی اشارہ کررہی ہے ہماری یہ غفلت آنے والی نسلوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ لمحوں کی خطا کی صدیوں نے سزا پائی۔ جس آزادی کی لڑائی میں ہر مذہب کی لوگ متحد ہوکر قربانیاں دے کر اپنے ملک کو آزادی کروالیا تھا آج ہم اس فرقہ پرست تنظیم کے ارادوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ یہ ملک کے ایکتا اور اکھنڈتا کو جو خطرہ ہے، اس کے خلاف اپنی جدوجہد اپنے حوصلوں کو بلند رکھنا ہوگا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جہاں ظلم بڑھ جاتا ہے وہی سے اس کی ختم کی شروعات ہوجاتی ہے۔ مساوات،انسانی ہمدردی اور انصاف کا گہوارہ ہوکر رہے گا۔ یہ ملک کبھی فرقہ میں نہیں بٹے گا یہ حکومت غیر ملکیوں کی شہریت دینا چاہتی ہے جو اپنے ملک کے شہری سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ کیا غیر ملکیوں کو شہریت دے۔ثانت کرنا کیا چاہتے ہیں یہ صرف ڈھونگ ہے محض چالاکی ہے۔ یہ حکومت یہ کالے قانون سے مسلمانوں کودربدرکرنا چاہتی ہے۔ اور فرقہ پرست حکومت مذہب کی بنیاد پر ملک کو توڑنے کی کوشش کررہی ہے۔

ہندوستان میں حق انصاف اور آئین کے تحفظ کیلئے جو تحریکیں چل رہی ہیں اس کالے قانون کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ حکومت کی تمام ہتھکنڈے دھرے کے دھرے رہے جائیں گے۔اب یہ آواز تھمنے والی نہیں جو عوام تمہیں ووٹ دیکر اقتدار پر لائی اب وہی عوام یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ یہ قانون واپس لینا ہوگا۔اور یہ ظلم وجبری قانون نہیں لگوہوگا۔ہندوستان ان کا اپنا ملک ہے۔ اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کسی نہیں ہے۔

طاقت کا غرور انسان کو تباہ کردیتا ہے۔ ہم تو چھوٹے چھوٹے ملکوں کے باسی ہیں۔ کسی زمانے میں بادشاہوں،مہاراجوں اور فاتحین کی سلطنتیں تومیلوں کے رقبوں پر پھیلی ہوئی ہوتی تھیں۔ فتوحات کے زمانوں میں وہ خود کو ناقابل تسخیر سمجھا کرتے تھے۔ مخالفین پر ہاتھی دوڑانا،سر قلم کروانا،تخت کے لئے باپ بھائیوں کو بھی قتل کردینا،یہ تمام باتیں ان کے لئے اتنی ہی عام تھی جتنی کہ ہمارے ہاتھ پر بیٹھے مچھر کومارنے کے برابر لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ بادشاہ کیا ہوئے؟ وہ فاتحین کہاں ہیں؟ اکثر کو توقبریں تک نامعلوم ہیں۔

وہ لوگ جوکچھ کرتے تھے وہ ان کے ادوار کو روایات تھیں،لیکن آج کا انسان تہذیب یافتہ ہے۔ وہ ان تمام حکمرانوں کے حالات سے واقف ہے۔اس کے سامنے تاریخ بازیجہ اطفال کی مانند سامنے بکھری پڑی ہے۔ لیکن یہی تہذیب یافتہ انسان کسی قدراحمق ہے کہ ہر دور کے جابرکے احوال جاننے کے باوجود تاریخ کی غلطیاں دہراتا رہتا ہے۔کئی حکومتیں آئی گئی۔ ہم اس ملک کی شہری ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!