Uncategorized

اقبال نے تاریخ سے مسلمانوں کا رشتہ جوڑ دیا

از: ساجد محمود شیخ

تلمیح کے لغوی معنی کسی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہیں اور فنی مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلام میں اختصار کے ساتھ حسن یازور پیدا کرنے کے لیے کسی قصّے کی طرف اشارہ کیا جائے۔ تلمیح کو استعمال کرنے کا اصل مقصدکم سے کم الفاظ میں زیادہ معانی و مطالب کی ادائیگی ہے۔ اگر ہر بات کو تفصیل سے کہا جائے اور طویل طویل کہانیاں اور قصّوں کو بار بار دہرایا جائے تو سننے والے بھی اکتا جاتے ہیں اور کہنے والے کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے۔ اسی بات کو اگر اشاروں میں بیان کردیا جاے تو گفتگو میں فصاحت اور بلاغت پیدا ہوجاتی ہے اور سامع کو بھی ہر بار نیا لطف محسوس ہوتا ہے۔ تلمیحی الفاظ گو مختصر ہوتے ہیں لیکن اپنے اور وسیع مطالب پنہاں رکھتے ہیں اس لیے علم و فضل رکھنے والے دانشور اور مدبر تلمیحی گفتگو کو پسند کرتے ہیں۔

اقبال نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ مسلمانوں کے لیے سارے عالم میں ہلاکت آفریں دور تھا چنانچہ اقبال عالمِ اسلام کے گوناگوں مسائل کا مداوا اسلامی تاریخ میں تلاش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کمالِ فن سے اردو شاعری میں ایک ایسا پاکیزہ ماحول پیدا کیا جہاں تلمیحات کے استعمال نے معنوں میں وسعت پیدا کردی۔ علامہ نے اسلامی تاریخ، احادیث اور قرآن کریم سے ایسی تلمیحات نکال کر اپنی شاعری میں استعمال کی جنہوں نے عشق کے تصور ہی کو بدل دیا۔ مثلاً جہاں پہلے ابراہیم ؑ اور نمرود، حضرتِ موسیٰ اور فرعون، امام حسین ؓاور یزید محض مذہبی تاریخ کا ایک حصہ تصور کئے جاتے تھے وہاں اقبال کے کلام میں نیکی اور بدی کی علامت بن گئے۔انیس چشتی فرماتے ہیں۔

”انھوں نے نہایت چابک دستی سے ملتِ اسلامیہ کا رشتہ اپنی تاریخ بیانی کے ذریعہ اس کے ماضی سے جوڑا ہے یہاں تلمیحات ان کے بڑے کام آئی ہیں۔“

صفحہ نمبر ۱۹، اقبال کا ادبی و تہذیبی ورثہ


ْٓاقبال کے ذریعے استعمال کئے گئے علامتوں کے بارے میں عقیل احمد صدیقی فرماتے ہیں۔


”جو صفت ان کے تصورات کو شاعری بناتی ہیں وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعے اپنے افکار کو محسوس شکل میں پیش کرتے ہیں تاکہ افکار کو جذبے کی سطح پر لایا جاسکے۔“

صفحہ نمبر ۲۴/ جدید اردو نظم، نظریہ و عمل


اقبال کے ذریعے تلمیحات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ظ انصاری فرماتے ہیں

”گرچہ بزورِ شمشیر ملکوں کی فتوحات کا زمانہ نہیں آنے والا، شاہی قوت و جبروت کا زمانہ لد گیا، شاہی جلال کے دن پھر نہیں آنے والے، مگر عظمت کی یاد تھکے ہوئے دلوں کو تازہ دم کرسکتی ہے۔ تازہ یا نئے آدرشوں کے ساتھ یہ قوم ذہنی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار میں نئی توانائی کے ساتھ اٹھ سکتی ہے۔“

صفحہ نمبر ۵۹/ اقبال کی تلاش


خضرِ راہ اقبال کی نظم ہے جس میں حضرتِ موسیٰ ؑ اور حضرتِ خضر ؑ کے درمیان سوالات و جوابات کو پیش کیا ہے، دورانِ سفر کشتی میں پیش آنے والے واقعات کو نظم میں ترتیب سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور نمرود کے قصّے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۴۱۹۱ء؁ میں عالمی جنگ کی
آگ کی طرف اولادِ ابراہیم یعنی مسلمانوں اور نمرود یعنی جنگ چھیڑنے والی یورپی قوتوں کو منسوب کیا ہے۔ خدا کی تلاش میں سرگرداں حضرتِ ابراہیم ؑ کا غروب آفتاب کو دیکھ کر یہ فرمانا کہ یہ میرا خدا نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا آل احمد سرور کہتے؛

”خضر راہ میں ہمیں ماضی کی صالح قدروں کا احساس، آیات و تلمیحات کے ذریعہ سے قوم کے حافظے کوتازہ رکھنے کا سلیقہ اور شاعر کے آئینہئ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر، یہ تینوں پہلو ملتے ہیں۔“

صفحہ ۲۴/ اقبال کافن، مرتب گوپی چند نارنگ

بانگِ درا میں ایک نظم ”رام“ کے عنوان سے ملتی ہے، اقبال کی تاریخ بیانی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے پوری نظم میں کہیں رامائن کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ اپنے ممدوح کو ہند کا امام تسلیم کیا ہے یعنی اس نظم میں دراصل وہ اس حقیقی رام کی تعریف کررہے ہیں جس کی شہرت اور نیک نامی سے متاثر ہوکر شاید دشرتھ نے اپنے بیٹے کا نام اسی نام پر رام رکھا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران جب ترک ناداں اپنی خلافت کی قبا چاک کررہے تھے اسی وقت طرابلس کے میدان میں فاطمہ بنتِ عبداللہ نامی ایک معصوم عرب لڑکی زخمیوں کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوشی کررہی تھی اس کے بے تیغ و سپر جہاد کو اقبالؔ نے اپنی نظم فاطمہ بنتِ عبداللہ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

اسلامی تاریخ، شوقِ شہادت، لاثانی، بہادری اور جذبہئ جہاد کے درجنوں واقعات اقبالؔ نے ایک مشاق تاریخ نگار کی حیثیت سے تحریر کئے ہیں ”جنگِ یرموک“ نامی نظم میں جنگِ یرموک کے دوران حضرت ابو عبیدہ ؓ کے سامنے ایک نوجوان کا اپنے آپ کو شہادت کیلئے پیش کرنا کہ کہ میں حضورؐ کے پاس پہنچنے کیلئے بیتاب ہوں مجھے رخصت کیجئے۔”محاصرہ ادرانہ“ میں محاصرہ ادرانہ کے دوران امیرِ فوج کا اپنے سپاہیوں کو ذمیّوں کا مال لوٹ لینے کا حکم دینا لیکن امیرِ شریعت کے فتویٰ کے آتے ہی سپاہیوں کا اس مال سے فوراًدست کشی اختیار کر لینا اور بھوک کو ترجیح دینا۔ اپنے اشعار کے ذریعے حضرت بلالؓ نام بچّے بچّے کی بان پر ہے۔غزوہئ تبوک میں حضرتِ ابوبکر صدیقؓ کا اپنا کل اثاثہ جنگ کی تیاری کے لیے حضورؐ کے قدموں میں لاکر ڈھیر کردیا۔ نظم صدیق ؓ میں اقبالؔ حضرت ابوبکرؓ کو کس انداز میں پیش کرتے ہیں؛
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدّیق ؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس

صقلیہ کا سلسلہ بلادِ اسلامیہ اور گورستان شاہی سے ملتا ہے۔ ان نظموں میں قوم کی شانِ جلالی کے جلوؤں کے بعد اس کی شان جلالی کے ظہور کا انتظار ہے یعنی ماضی مستقبل کے لیے غذا فراہم کرتا ہے، ان نظموں پر آل احمد سرور کی رائے ہے؛

”دوسرے دور کے آخر میں عبدالقادر کے نام اور صقلیہ ظاہر کرتی ہیں کہ ایک تو انہیں کے الفاظ میں یوروپ کی آب و ہوا نے ان کو مسلمان کردیا ہے اور دوسرے یہ شعلہ نوائی بزم میں اجالا کرنے کے لیے وقف ہوگئی ہے۔“

صفحہ نمبر ۰۰۱/ اقبال کا نظریہئ شعر اور ان کی شاعری

اسی طرح شیریں فرہاد کا واقعہ ہے جس کے مختلف اجزاء فلسفہئ اقبال کے گوناگوں پہلوؤں کے اظہار کا مؤثر اور دلنشین ذریعہ بن گئے ہیں۔’زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ‘ اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے سید وقار عظیم کہتے ہیں؛

”اس شعر میں کوہکن اس شخص کی علامت ہے جسے اپنا گوہرِ مقصود حاصل کرنے کی لگن ہے،”جوئے شیر“ اس کا وہ گوہرِ مقصود ہے کہ مل جائے تو گویا محبوب مل گیا۔ سنگِ گراں وہ رکاوٹیں ہیں جو گوہرِ مراد کے راستے میں حائل ہیں۔“

صفحہ ۲۶/ اقبال، فلسفی اور شاعر

جلوہئ طور و کلیم کا ذکر اقبال کی کئی نظموں میں پایا جاتا ہے، ہمالہ، خفتگانِ خاک سے استفسار، شمع و پروانہ، شمع، دل، تصویرِ درد اور کچھ غزلوں میں جلوہٴ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!