سماجیسیاسیمضامین

میرا پی ایم جھوٹا ہے

رشید ودود

سیاست دانوں میں بہت اچھے اچھے مقرر گزرے ہیں لیکن پولیٹیکل سائنس کے کسی طالب علم سے اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ سیاست دانوں میں بدترین مقرر کون ہے تو وہ بلاتکلف جواب دے گا کہ نریندر دامودر بھائی مودی! یہ جواب تعصب پر نہیں، حقیقت پر مبنی ہوگا، اس لئے کہ مسٹر مودی کی تقریروں میں علم کے بجائے جہل کا غلبہ ہوتا ہے، حقیقت کے بجائے جذبات کی تبلیغ کی ہوتی ہے، معلومات کو ایک خاص ترتیب سے پیش کیا جاتا ہے جس سے جھوٹ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے، لب و لہجے میں سنجیدگی کے بجائے مسخرہ پن زیادہ ہوتا ہے، وہ طنز کرتے کرتے پھکڑپن کی حدوں میں داخل ہو جاتے ہیں، اکثر و بیشتر خود طنز کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

نشیب و فراز سے تقریر کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے لیکن مقرر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تقریر میں کہاں نشیب میں جانا ہے اور کہاں فراز میں، لیکن مودی جی واحد ایسے مقرر ہیں جو نشیب کی جگہ فراز میں اور فراز کی جگہ نشیب میں جاتے ہیں، مقرر اُس ڈرائیور کی مانند ہوتا ہے جو سڑک دیکھ کر گیئر بدلتا رہتا ہے لیکن مودی جی ہمیشہ غلط وقت پر غلط گیئر لگاتے ہیں، بعض اوقات تو وہ ٹاپ گیئر لگا کر چڑھائی پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی سانس پھول جاتی ہے اور انہیں پانی پینا پڑتا ہے۔

مسٹر مودی تیسرے درجے کے مقرر بھی نہیں ہیں اگر وہ وزیراعظم نہیں ہوتے تو مداری ہوتے، اپنی تقریر کی بدولت سڑک پر بھیڑ بھی نہیں جمع کر پاتے لیکن یہ بھی اتنا ہی صحیح ہے کہ ‘بھیڑ ہمیشہ بیوقوفوں کی ہوتی ہے، ماننے پر آیئں گے تو گائے کو خدا مان لیں گے، انکار پر آیئں گے تو مسیح کو صلیب پر چڑھا دیں گے، اسی لئے مودی جی ایک ایسی بھیڑ کے مقرر ہیں جو دماغ کے بجائے جذبات سے سوچتی ہے، جو مدح میں غلو کرتی ہے، جس بندے کی تقریر سے خود اس کی بیوی نہ رام ہوئی ہو وہ آج پورے مجمعے کو رام کر لیتا ہے، ہے نا حیرت کی بات لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو بندہ اپنی بیوی کو یقین نہیں دلا سکا، آج پورا مجمع اس پر یقین کر لیتا ہے۔

دلی کے رام لیلا میدان میں آج مسٹر مودی کی تقریر ہوئی، ہمیشہ کی طرح مودی مودی کا نعرہ لگانے کیلئے بھکتوں کی فوج ظفر موج ان کے سامنے تھی، وہ آئے تھے کنفیوژن دور کرنے لیکن اپنی تقریر سے وہ مزید کنفیوژ کر گئے، تقریر کا مکھڑا بہت شاندار تھا، بھکتوں نے اسے اٹھایا بھی شاندار، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو مقرر پارلیمنٹ کی عظمت کے نام پر عوام کے جذبات برانگیختہ کر رہا تھا، وہ خود اس دن پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھا، جس دن سی اے اے پارلیمنٹ میں پیش ہوا تھا لیکن یہ عوام کرائے کے وہ ٹٹو ہیں جنہیں بھکت کہا جاتا ہے، اس لئے انہیں معلومات سے کیا لینا دینا؟ انہیں تو بس ہاں میں ہاں ملانا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ اپوزیشن موجود نہیں لیکن اگر اس مخلوق کا وجود بھی ہوتا تو آج انہیں چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جانا چاہئے بطور خاص کانگریس کو، کانگریس کی بنا سیکولرزم ہے لیکن وہ اپنے آغاز سے لے کر آج تک ڈھلمل یقینی کی شکار ہے، کانگریس جیسے ہی سیکولرزم چھوڑتی ہے تو وہ کمزور ہو جاتی ہے اور ملک بھی کمزور ہونے لگتا ہے، این آر سی کا یہ جن بھی کانگریس ہی کا پیداکردہ ہے، مودی کا جرم بس اتنا ہے کہ اس نے اس جن کو بوتل سے باہر نکال دیا ہے لیکن رکئے آپ ابھی! مودی نامی اس فتنے کی موجد بھی کانگریس ہی ہے، وہ اگر چاہتی تو پہلے ہی مرحلے میں اس فتنے کا سر کچل سکتی تھی لیکن اس نے نہیں کیا، گجرات فساد کے موقعے پر سپریم کورٹ نے مودی کی تشبیہ نیرو سے دی تھی، کانگریس چاہتی تو اس نیرو کی بنسری چھین سکتی تھی لیکن کانگریس بنسری کی آواز سن کر مبہوت ہو کر رہ گئی۔

مودی نے آج کی تقریر میں یہ ظاہر کیا کہ وہ بھید بھاؤ نہیں کرتے لیکن ممتا بنرجی پر طنز کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ بھید بھاؤ ان کی سرشت میں ہے، انہوں نے کہا کہ ممتا بنرجی کس کی حمایتی ہیں؟ کس کی مخالفت کرتی ہیں، یہ سب جانتے ہیں، ‘سب جانتے ہیں، میں بھکتوں کیلئے جو اشارہ ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔

مودی جی کی یادداشت کمزور ہے، انہیں اگر یہ معلوم ہوتا کہ مظاہرین کے لباس کی نشاندہی کس نے کی تھی؟ تو شاید وہ بھید بھاؤ کی شکایت نہیں کرتے، ہندو مہاجرین کا ذکر کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئے لیکن پھر بھی انہیں دعوی ہے کہ وہ بھید بھاؤ نہیں کرتے، سوال یہ ہے کہ کیا ہجرت کا کرب صرف ہندوؤں نے سہا ہے، یہ تو ایک انسانی مسئلہ ہے لیکن مودی جی کی فرقہ وارانہ ذہنیت اسے بھی ایک مذہبی مسئلہ بنا کر پیش کر رہی ہے۔
آج پتہ چلا کہ مودی جی ووٹ بینک کی سیاست نہیں کرتے، وہ تو بس ملک و قوم کی فلاح چاہتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی جی ووٹ لینے کیلئے کسی بھی سطح پر جا سکتے ہیں، جھوٹ بول سکتے ہیں، قتل عام کروا سکتے ہیں، معیشت کو ڈاواں ڈول کر سکتے ہیں، کیا نہیں کر سکتے ہیں، سب کچھ کر سکتے ہیں، انہیں تو بس وؤٹ سے مطلب ہے، وؤٹ لینے کیلئے وہ مشین ہی نہیں انسانوں کا دماغ بھی ہیک کر سکتے ہیں، تو کہنا بس یہ ہے کہ سوپ بولے تو بولے چلنی کیوں بولے؟ جسے خود 72 چھید ہیں۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر دہلی پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا، خود ہی پتھر برسائے اور اسی کا بہانہ بنا کر لاٹھی چارج بھی کیا، دہلی پولیس نے بسوں میں آگ لگائی، پولیس کے اس ظلم پر منیش سسودیا تک چیخ اٹھے لیکن مودی جی آج پولیس کی معصومیت پر ایسے دلائل دے رہے تھے جیسے کوئی دیوث کسی طوائف کی پاکدامنی پر قسمیں کھا رہا ہو، دہلی پولیس کے علاوہ یوپی پولیس نے مختلف شہروں میں مظاہرین پر ظلم کا پہاڑ توڑ دیا، شب و ستم کیا لیکن یہ سب مودی جی کو نظر نہیں آیا، نظر آئے بھی تو کیسے جب ایک تڑی پار کو انہوں نے وزارت داخلہ کے منصب پر بٹھا رکھا ہے، یہ تڑی پار ایک اینکر سے پوچھتا ہے کہ پتھر کس نے برسائے؟ پتھر پولیس والے برسائیں تو وہ درست لیکن یہی پتھر اگر عوام کے ہاتھ میں آجائے تو وہ نادرست۔

مودی جی نے اپنی اس تقریر میں خود کو غریبوں کا مسیحا بنا کر پیش کیا ہے، انہیں دکھ ہے کہ اپوزیشن غریبوں کو ان کے خلاف ورغلا رہا ہے، بھلا اپوزیشن کو کیا ضرورت کہ وہ غریبوں کو چوتیا بنائے، غریب تو خود چوتیا ہیں، یہی غریب پندرہ لاکھ کے نام پر بیوقوف بنے، جن دھن یوجنا کے نام پر بیوقوف بنے، نوٹ بندی میں بیوقوف بنے، اُجَّوَل یوجنا کے نام پر لوٹے گئے، کشمیر میں پلاٹ کے نام پر ٹھگے گئے لیکن ان کے سامنے جیسے ہی مودی جی مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، یہ غریب فورا رومال پیش کر دیتے ہیں کہ صاحب! آنسو پوچھ لیجئے! جب تک ہم غریب ہیں، تب تک آپ کو سوٹ بوٹ پہناتے رہیں گے۔

پڑوسی ممالک میں اقلیتوں پر ظلم ہوتا ہے، پاکستان میں یہ ہوتا ہے، پاکستان میں وہ ہوتا ہے، بھئی مودی جی! ہمیں پاکستان سے کیا مطلب؟ آپ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دلتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا ہے لیکن انہیں دلتوں کے ساتھ برہمن کیا سلوک کرتے ہیں؟ آپ نے کبھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟ آواز اٹھانا تو بہت دور کی بات ہے کہ سی اے اے لا کر آپ خود دلتوں سے پاکستان اور برہمنوں جیسا سلوک کرنے جا رہے ہیں، آپ کو دکھ ہے کہ پاکستان میں ہندو بیٹیوں کی عزت تار تار کی جاتی ہے لیکن اناؤ کی ایک بہادر بیٹی کے ساتھ آپ ہی کی پارٹی کے ایک ممبر اسمبلی نے جو وحشیانہ سلوک کیا ہے، آپ نے اس ظلم کے خلاف کیا ایکشن لیا؟ ظالم بھی ہندو ہے اور مظلوم بھی ہندو لیکن آپ کا آشیرباد صرف ظالم ہی کو کیوں حاصل ہے؟ صرف آپ ہی کا آشیرباد نہیں آپ کی پارٹی کا ایک ممبر پارلیمنٹ بھی اس ظالم کو مبارکباد دے رہا ہے لیکن آپ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، پرمود پہوا سر بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ کوئی آئے اور ان سے ڈیبیٹ کر لے، وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کے ہندو خیریت سے ہیں لیکن کوئی سن ہی نہیں رہا، کیا مودی جی بتا سکتے ہیں کہ پاکستان سے کتنے ہندوؤں نے مذہبی ظلم کی بنا پر ہجرت کی؟ تقسیم کے وقت پاکستان میں ہندوؤں کی کتنی تعداد تھی؟ یہ تعداد گھٹی ہے یا بڑھی ہے؟

یہ سوال اہم ہیں، ان کی اہمیت کے پیش نظر مودی جی کو اس کا جواب دینا چاہئے لیکن ہم جانتے ہیں جو وہ لکھیں گے جواب میں، مودی جیسے ہندو ہردے سمراٹ کے پاس ان سوالوں کے معقول جواب نہیں ہیں۔

مودی جی لاکھ صفائی دیں کہ سی اے اے مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، اویسی جی لاکھ دہائی دیں کہ یہ بل مسلمانوں کے خلاف ہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بل ہندوستانیوں کے خلاف ہے، بطور خاص ان ہندوستانیوں کے خلاف جو نارتھ ایسٹ کے باشندے ہیں، بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہاں ہندوؤں کی کتنی تعداد تھی؟ آج یہ کتنی ہے؟ اس آنکڑے پر جب نظر ڈالیں گے بہتیری ان کہی پہیلیاں آپ کو سمجھ میں آ جایئں گی اور یہ بھی سمجھ میں آ جائے گا کہ بطور خاص نارتھ ایسٹ ہی کی ریاستیں کیوں آگ بگولہ ہیں؟ ہندوتو کا چورن بیچنے والے مودی جی! خود کو ہندو ہردے سمراٹ سمجھنے والے مودی جی! ہندو پریم کے شیرے میں لتھڑے ہوئے مودی جی ہندوؤں کے کتنے طرف دار ہیں؟ بتانے کی ضرورت نہیں۔

مودی جی! بقول خود آپ سچائی کے علمبردار ہیں، آپ افواہ نہیں پھیلاتے، آپ پروپیگنڈہ نہیں کرتے، آپ نے جی ایس ٹی کے نفاذ کے موقعے پر قوم کے سامنے سچ بولا تھا، وہی سچ آپ نے دفعہ 370 کے خاتمے کے موقعے پر بھی بولا اور وہ سچ یہ تھا کہ جب ملک ایک ہے تو قانون ایک کیوں نہیں لیکن آج رام لیلا میدان میں آپ نے سچ نہیں بولا، اگر آپ سچائی کے علمبردار ہیں تو آپ نے آج کیوں نہیں بتایا کہ سی اے اے کا نفاذ ارونانچل پردیش، ناگا لینڈ اور منی پور میں نہیں ہوگا، ان ریاستوں میں اس قانون کا نفاذ کیوں نہیں ہوگا؟ یہ سچ آپ کبھی نہیں بولیں گے، اس لئے کہ کشمیر کے تعلق سے اتنا جھوٹ آپ بول چکے ہیں کہ پرمٹ سسٹم کی تفصیل بتاتے ہوئے آپ کی زبان لڑکھڑا جائے گی۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ کی تقریر کا جھوٹ کا پلندہ تھی، مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ آپ جھوٹ اعتماد سے بولتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ لوگ آپ کے جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں اور اس مان لینے سے ملک کا کتنا نقصان ہو رہا ہے؟ سادہ لوحوں کو اس کی خبر نہیں۔

اور ہاں۔۔۔ یاد آیا کہ مودی جی نے ڈٹنشن کیمپ کے وجود سے انکار کیا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ آسام کے گول پاڑہ میں ڈٹنشن کیمپ 31 دسمبر تک تیار ہو جائے گا، باقی آسام میں ہی کم سے کم دس کیمپ کے تعمیر کی خبریں آرہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!