مسلمانوں کے بغیرملک کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ادھورے ہیں اور ہونگے۔
ذوالقرنین احمد
ہندوستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اور اس میں مرکزی اقتدار پر قابض حکومت کا بڑا اہم کردار ہے۔ یہ فرقہ پرست چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے بد امنی پھیلائی جائے اور اسکا فائدہ حاصل کر کے اپنی کرسیاں بچائی جائے۔ اور آیندہ کیلے اقتدار پر قابض رہنے کیلے زمین تیار کی جائے۔ ایک مخصوص قوم کو پریشان کر کے اور انکے خلاف مختلف طریقوں سے ظلم و تشدد کرکے انہیں کمزور کیا جائے، اور اسکے زریعے ایک فرقہ پرست گروہ کو خوش کیا جائے۔ حال ہی میں این آر سی کی طرف حکومت نے پیش قدمی کی ہے جس میں شہریت ترمیمی بل کو دونوں ایوانوں میں پاس کرنے کے بعد قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔
یہ قانون ایسا ہے جس میں دیگر غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہیں لیکن صرف مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ آسام کی مثال ہمارے سامنے ہیں این آر سی پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا گیا اور جو ڈاٹا حاصل ہوا ہے اس میں اتنی غلطیاں کی گئی ہیں۔ کہ جو کارگیل میں شریک تھے انکے خاندان والوں کے نام تک شہری قومی رجسٹرڈ میں نہیں آیا ہے۔ کہیں افراد تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی فوج میں رہ کر گزاری اور اب انکے نام این آر سی میں شامل نہیں ہے۔
اب یہ قانون یعنی این آر سی پورے ملک میں نافذ کرنے کی تیاری شروع ہے جس کا ابتدائی حصہ شہریت ترمیمی قانون ہے۔ اس کے زریعے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ لیکن اسکا نقصان دیگر طبقات کو آسام میں زیادہ ہوا ہے۔ اس لیے اب دیگر مذاھب کے ماننے والوں کو بھی یہ فکر لاحق ہورہی ہے کہ کہی انکا نام بھی این آر سی سے باہر نا ہوجائے۔ ہندوستان میں اکثر طبقہ ایسا ہے جو غریبی میں زندگی گزر بسر کرتا ہے۔ اور تعلیمی فیصد بھی بہت کم ہے۔ اسی طرح دیگر آدیواسی طبقات ہے جن کا ایک ٹھکانا نہیں رہتا ہے۔ وہ کچھ دن میں ہی اپنا علاقہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ اور پھر کئی اور جاکر بستے ہیں۔
ایسے افراد کہاں سے کوئی سرکاری دستاویز لاکر دے گے۔ اسی طرح بہت بڑا طبقہ انپڑھ ہے انکے پاس بھی کوئی خاص پرانے دستاویزات نہیں ہے۔ اس قانون کے زریعے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے، سوائے فضول پیسہ خرچ کیا جائے گا۔ کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے استعمال کرکے ملک کی اقتصادی حالت کو اور کمزور کیا جائے گا۔ پہلے ہی ملک کی جی ڈی پی 5 فیصد کے آس پاس پہنچ چکی ہے۔ اسکے نقصانات بہت ہی خطرناک صورتحال اختیار کر سکتے ہیں۔
اس بات سے ہی حکومت کے ناپاک عزائم کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اگر اتنا بڑا دل رکھتی ہے کہ غیر ملکیوں کو شہریت دینا چاہتی ہے جو کئی برسوں سے یہاں آباد ہے تو پھر جو ملک کی آزادی سے قبل سے اور جو ہزاروں سالوں سے یہاں آباد ہے انکے نام سے کیوں نفرت ہے۔ ان مسلمانوں سے کیوں حکومت کو الرجی ہے۔ اور اگر غیر ملکیوں کو شہریت دینا ہے تو دینے میں کیا برا ہے وہ کئی برسوں سے یہاں پر بس چکے ہیں تو انہیں مردم شماری کے عمل میں بھی داخل کیا جا سکتا ہے۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکومت اس کالے قانون کے زریعے مسلمانوں کو دربدر کرنا چاہتی ہے۔
حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور اسکے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف طلباء و طالبات نے صدائے احتجاج بلند کی، جس میں انہوں نے اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے قانونی دائرے میں رہے کا حکومت سے مطالبہ کیا کے وہ اس قانون کو واپس لے کیونکہ یہ ملک کثرت میں وحدت کی مثال ہے۔ اسکی بنیاد جمہوری آئین پر رکھی گئی تھی۔ اسکی آزادی میں بھی مسلمانوں ہندؤں سکھوں نے ایک ہوکر انگریزوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ لیکن آج یہ فرقہ پرست حکومت مذہب کی بنیاد پر ملک کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جامعہ سے اٹھنے والی آواز سے حکومت کو ایسی کونسی تکلیف ہورہی تھی کہ ان صنف نازک پر اپنی لاٹھیوں کا استعمال کیا آنسوں گیس کے گولے داغے گئے، اور یونیورسٹی کے کیمپس میں گھس کر لائٹ بند کرکے فائرنگ کی گئی طلباء کو مجرم کی طرح ہاتھ اوپر کرکے باہر نکال کر بھاگنے کیلے کہا گیا۔ آخر جرم کیا تھا ان طلباء و طالبات کا میں سلام پیش کرتا ہوں اس طالبہ کو جس نے پولس کو گو بیک گو بیک کی گرج دار آواز سے باہر نکالا اور جب پولس نے ایک طالب علم پر بے دردی سے لاٹھیاں برسائی اس وقت اس طالبہ نے اپنی انگلی کے اشارے سے پولس کے روپ میں گنڈوں کو روکا۔ اس صنف نازک کی آواز اور للکار پورے ہندوستان میں گنج رہی ہے۔
جامعہ ملیہ سے بلند کیا گیا یہ صدائے احتجاج آج پورے ہندوستان ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں تک پہنچ چکا ہے۔ پولس کی بربریت کا ننگا ناچ پوری دنیا نے دیکھا کہ ان طلباء پر صرف اس لیے لاٹھیاں برسائی گئی اور آنسوں گیس کے گولے جو ایکسپائری کے قریب تھے داغے گئے کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ اور جامعہ ملیہ میں جبرا اسی لیے داخل ہوئے طالبات کو گندی گالیا دی گئی۔ گجروں نے مراٹھو نے جب ریزرویشن کیلے احتجاج کیا تھا تا پٹریاں اکھاڑ دی تھی۔ گھروں میں گھس کر عوام پر تشدد کیا گیا تھا۔ ہائے وے جام کیے گئے تھے۔ تا ان پولس والوں اور حکومت کا یہ رویہ کیوں نہیں تھا۔ صرف اسی لیے کے جامعہ ملیہ اسلامیہ مسلمانوں کے نام سے مشہور ہے۔ اور وہ طلبا و طالبات مسلمان تھے لیکن ان مظلوم بے قصور طلباء کی آواز کو دبایا نہیں جا سکا وہ ڈٹے رہے اور اپنے حق کیلے ببانگ دہل صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔ انکی آواز نے ہندوستان میں حق انصاف اور آئین کے تحفظ کیلے ایک تحریک برپا کردی ہے۔ کروڑوں افراد سڑکوں پر اتر چکے ہیں۔
لیکن یہ حکومت اقتدار کے نشہ میں چور ہوکر یہ کہی رہی ہے کہ تم کتنے ہی احتجاج کرلوں قانون میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ لیکن ان فرقہ پرست اقتدران کو اس بات کا بھی پتہ ہونا چاہئیے کہ حکومتیں عوام سے چلا کرتی ہے۔ عوام نے تمہیں ووٹ اس لیے نہیں دیا تھا کہ من چاہے قانون بناؤں اور اور چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر پوری عوام کے حقوق کو کچل کر رکھ دو انہیں اپنے ہی ملک میں پرایا کردو، نہیں ہرگز نہیں یہ تمہاری خام خیالی کہ سوا کچھ نہیں ہے۔ عوام ہی کی وجہ سے تمہاری کرسی ہے تمہارا اقتدار ہے۔یہ عوام ہی ہے جس نے اقتدار میں تمہیں لایا ہے وہ تختہ اقتدار کو پلٹنے کی قوت بھی رکھتی ہے۔
آج جس طرح پورا ہندوستان تمام مذاب کے ماننے والے ایک ہوکر اس کالے قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں تمہیں اپنی کرسیوں کی فکر ستا رہی ہیں تم ان انصاف پسند باشعور زندہ دل افراد کی آواز سے ڈر لگنے لگا ہے۔ تم انکی آوازوں کو دبانے کیلے بڑے بڑے شہروں میں احتجاج کرنے والوں کو جیلوں میں قید کر رہے ہو، تم ہٹلر کے نقشے قدم پر چل کر عوام پر ظلم و تشدد کر رہے ہو، انصاف پسند حق بولنے والے رائیٹر، سماجی شخصیات، کے شعبہ سے انہیں بے دخل کر رہے ہو احتجاج کو روکنے کیلے کرفیو نافذ کردیا جارہا ہے۔ تمہارے یہ تمام ہتھکنڈے مثل دھواں ہوکر اڑ جائے گے۔ اب یہ آواز تھمنے والی نہیں ہے اور یہ نوجوانوں کا قافلہ اب میدان میں اتر چکا ہے۔ تمہیں کالے قانون کو واپس لینا ہوگا یا پھر اپنے اقتدار سے بے دخل ہونا ہوگا۔ عوام ہی اسکا فیصلہ کرے گی۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس احتجاج میں اپنا کردار ادا کرے ملک میں ہم برابر کے حصہ دار ہے اس ملک کو ہم نے خون جگر سے سینچا ہے۔ آزادی کے بعد اس ملک کو ہم نے اپنی پسند سے چنا ہے اور اس مٹی میں ہی دفن ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ آج بچہ بچہ اس حکومت کے ظلم و جبر سے آزادی مانگ رہا ہے۔ انشاء اللہ اس حکومت کا تختہ بھی پلٹے گا۔ اس بات ضرورت ہے کہ مسلمان جذبات کے دھارے میں حد سے زیادہ نہ بہہ جائے ہوش و حواس پر قائم رہے۔ اپنے وجود کا احساس دلانے کیلئے اب ہمہ وقت تیار رہے ہم اس ملک کے اول درجے کے شہری ہیں۔ اس ملک کی تقدیر کے فیصلے تمہارے بغیر ادھورے ہے۔