سماجیسیاسیمضامین

یہ کہاں آگئے ہم!

زین شمسی

کبھی بے فکری شب بیداری کا شغل ہوا کرتی تھی۔ اب فکرمندی رات کو سونے نہیں دیتی۔ خراب دن آتے ہیں لیکن حالات نے رات کو بھی خراب کر ڈالا ہے۔ تقدیر سے گلہ ہے نہ تدبیر سے کوئی شکوہ۔ ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔ بہادری دوسروں سے حساب مانگنے میں نہیں خود کا احتساب کرنے میں ہوتی ہے۔ ہم نے کبھی خود کو ٹٹولنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اپنے ارد گرد پھیلے سراب کو امیدوں کی شراب سمجھ کر پیتے رہے اور جب عقدہ کھلا تو دماغ کی شہ رگیں پھٹنے لگیں۔

جس پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ نہ کوئی قائد نہ کوئی رہبر۔ شاندار ماضی کا ایسا خوفناک مستقبل شاید ہی کبھی تصور کے پردے پر ابھرا ہو۔ بیس پچیس کروڑ کی بے سر و پیر کی آبادی، کہ جسے نہ سمت کا پتہ ہو اور نہ ہی اپنی رفتار کا۔ کیا یہ ممکن ہے۔ دل نہیں مانتا، مگر سچائی سے بھی منہ کیسے موڑ لوں۔
قرآن کے رہتے ہوئے راستے نہیں مل رہے ہیں، تعجب ہے
نماز کے رہتے ہوئے استحکام کا فقدان ہے، تعجب ہے
روزہ کے رہتے ہوئے صبر و تحمل کا بحران ہے، تعجب ہے
زکوة کے رہتے ہوئے دلوں میں لالچ ہے ، تعجب ہے
قربانی کی سنت ہوتے ہوئے تعصب و کوتاہ نظری کی بہتات سمجھ سے پرے ہے۔

توحید کے داعی منتشر اور غیر متحد ہوں، تعجب ہے۔
تحریک، انقلاب، احتجاج،مظاہرے، لڑائی ،چڑھائی اور حکمرانی کا سیدھا تعلق اعمال سے ہے۔ عمل اچھا نہیں تو ناکامی منتظر ہے اور یہ ہو کر رہے گی۔ میں کیوں کہتا ہوں کہ مسجد کو مضبوط کرو۔ صرف اس لیے کہ اب بھی مسلمان اتنے نہیں گرے ہیں کہ وہ مسجد کا لحاظ نہ رکھ سکیں۔ مسجد کو مضبوط کرنے کا مطلب کئی لوگ تبلیغ جماعت کی سرگرمیوں سے نکال رہے ہیں جبکہ میں اسی مضبوطی کی بات کر رہا ہوں جو حضورﷺ کے دور میں مساجد کی حیثیت سے تھی۔ جہاں دنیاوی مسائل کا حل نکالا جاتا تھا۔ ایک بار اپنے تمام معاملات کا حل مسجدوں کے صحن میں ڈھونڈئیے کامیابی آغوش میں ہو گی۔ نہ عدالت کا چکر نہ پولیس کی پریشانی۔ جتنے مقدمے عدالتوں میں پھنسے ہیں۔ جتنے پیسے وکیلوں اور پولیس کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں مسجدوں میں مفت میں حل ہو جایا کریں گے۔

کسی کا بیٹا آئی اے ایس بنا کسی کی بیٹی ڈاکٹر بنی۔ کسی کا بیٹا سائنٹسٹ بنا کسی کی بیٹی جج بنی تو اس کی لسٹ مسجد میں موجود ہو اور انہیں مسجد میں کنسلٹنسی کے لئے بلایا جائے تاکہ دوسرے لوکوں کو مفت میں صلاح و مشورہ مل سکے اور کمیونٹی ترقی کر سکے۔ مساجد میں ویکنسی اور اسکیموں کی فہرست چسپاں کی جائے تاکہ وہاں پر آنے والے لوگوں کو جانکاریاں مل سکے۔
مسجد کو عبادت کی جگہ عادت کا راستہ بناکر دیکھئے ۔ ساری مشکل حل ہو گی۔ غلطی یہیں پر ہوئی ہے۔ ہم نے مدارس کو مساجد پر فوقیت دے دی۔ مسجد میں مدرسہ ہو نہ کہ مدرسہ میں مسجد۔مسجد اللہ کی ہوتی ہے اور مدرسہ شخص کا اس لیے قوم خدا پرستی سے خود پرستی پر آ گئی۔ اور جب خود پرستی کا بول بالا ہوگا تو خودی کی تلاش تو کیا پوری ہوگی وجود کے فنا ہونے کا خطرہ سامنے ہوگا۔ اور آج آپ اپنی شناخت اور وجود کے ختم ہونے کے دوراہے پر نہیں بلکہ چوراہے پر کھڑے ہیں۔
اب بھی وقت ہے۔ ہم لوگ لوٹ چلیں اپنے دین کی طرف۔ ایک ایسے سچے دین کی طرف جسے اللہ نے یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو ظلم اور گناہ سے نجات دلائیں گے۔ غیر مسلم قرآن اور نماز نہیں پڑھتے وہ ہمیں اور آپ کو پڑھتے ہیں اس لیے اپنا کیریکٹر درست کیجیئے سب درست ہو جا ئے گا۔

مسلمانوں کا دانشور طبقہ قوم کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا۔ کمیونٹی کے لیے اس کا کوٸی کنٹریبوشن آج تک نہیں نظر آیا۔ اس نے پاش علاقہ میں آرام دہ زندگی کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ بچوں کو امریکہ انگلینڈ بھیج کر سکون کی زندگی جی رہا ہے قوم کو جب بھی اس کی ضرورت ہوئی وہ منفی تاویلیں پیش کر کے مولویوں کو کھری کھوٹی سنا کر بینک بیلنس بڑھاتا رہا۔ اسے کبھی فکر نہیں ہوئی کہ اس کے دینی بھائی سماج کے کس گوشے میں پڑے ہوئے ہیں۔ لاکھوں کا ماہانہ پانے کے باوجود وہ ہزاروں میں زندگی گزارنے والے امام موذن حافظ قاری کا خیال نہیں رکھ سکے۔
باتیں طویل ہوگئی ہیں۔ کروں تو کیا کروں مسائل کا انبار ہے۔ یہ کیسے حل ہوں گے۔ سمجھ میں نہیں آتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!