مذہبیمضامین

اُٹھ! کہ پھر قائم کریں میزانِ عدل…

عمارہ فردوس ،جالنہ مہاراشٹر

خلافت راشدہ کا سنہرا دور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے پھول کھلا تا ہے، وہیں اسکا زوال آنکھوں سے ندامت کے آنسو جاری کردیتا ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انتھک کوششوں سے جس جماعت کی تشکیل فرمائی تھی وہ ایک طرف دنیا سے بے نیاز تھی تو دوسری طرف دنیا پر حکمرانی کرنے والی تھی، ایک طرف خدا پرستی میں بے مثال تھی تو دوسری طرف امور جہاں بانی میں یکتائے زمانہ تھی۔۔۔ایسے پاکیزہ نفوس اس دنیا کے امام بنائے گیے تھے جنکی عظمت و تابانی کے نقش تاقیامت زمین پر ثبت رہیں گے، جنھوں نے قیصر و کسری کے تخت الٹ کر اپنی عظمت کا سکہ جمایا تھا ،جن کے دبدبے سے پہاڑ ہیبت سے رائی کی طرح ریزہ ریزہ ہوجاتے تھے۔۔جو راتوں کے عابد تھے تو دن کے مجاھد تھے ،جو علم و حکمت کے دریچے کھولنے والے تھے، جو نفوس قدسیہ صبغت اللہ کے ایک رنگ میں رنگے ہوئے تھے مسجد سے لیکر بازار تک، مدرسہ سے لیکر عدالت تک اور گھروں سے لیکر میدان کار زار تک خدا کے بندے بنائے گیے تھے۔ انکے پاس جن صداقتوں کی تعلیم مسجد کے منبروں پر سے دی جاتی تھی انھیں صداقتوں پر حکومت کا نظم و نسق بھی چلتا تھا۔ جس سنہرے دور کا یہ باب تھا دنیا اسے خلافت علی منہاج النبوۃ کے نام سے یاد کرتی ہے۔‌‌۔۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ ہم نے اپنی عظمت کو کھونا شروع کیا ،تقدیر امم کے اس باب میں جھول پڑنے لگا۔۔ جبر کی ارزانیاں اور ظلم کی بہتات نے آخر کار خلافت کی قبا چاک کردی ۔۔۔، مسلمانوں کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوئے، وقت نے کروٹ بدلی اور یہ خوبصورت رنگ بکھرتے چلے گیے،قدریں بدل گئیں ،جہاں تقوی کے جام انڈھیلے جاتے تھے وہاں اب سامان تعیش کے مزے لیے جارہے تھے ،جہاں رائی برابر ناانصافی کی گنجائش نہیں تھی،اب وہاں انصاف کی راہوں سے خود خلیفہ المسلمین کتراکر نکل جاتے ، جہاں قرآن کا دستور نافذ تھا وہاں اب اپنے من پسند قوانین وضع کیے جارہے تھے۔

ان الحکم الا للہ کا تصور ختم کرنے کی کوشش غیر محسوس طریقہ سے اپنی جگہ بنارہی تھی اور پھر رفتہ رفتہ امت مسلمہ اپنی عظمت رفتہ کو کھو کر ایک بڑے زوال کی جانب گامزن ہوگئی ۔۔خلافت کا پیرہن ریزہ ریزہ ہوا۔۔ ،قدریں بدلیں تو تعبیریں بدل گئیں، میزان بدلے تو دستور بدل گئے ،راہیں تبدیل ہوئیں تو تصورات کی دنیا بدل گئی ، رویوں میں فرق آیا تو دلوں کی دنیا مکدر ہوگئی ،خدا خوفی کو کنارے کیا گیا تو ایک روشن دور کنارے ہوگیا ،اور پھر روشن تاریخ نے اپنے جسم پر پہنے روشن لباس کو نکال پھینکا۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ خلافتِ راشدہ کو بچانے کے لیے نواسہ رسول کے سر تن سے جدا ہوگیے۔ خدا کے دین کے سچے شیدائی آج بھی اس روشن دور کو واپس لانے کیلیے اپنی آنکھوں میں خواب سجاتے ہیں،

جو دور خدائی اصولوں سے مزین تھا۔ جہاں ایک عورت صنعا سے لیکر حضر موت تک اکیلیے سونا اچھالتے ہوئے سفر کرتی تو محفوظ رہتی۔۔۔۔۔

۔۔۔خلافت وہ ہوتی ہے جہاں ایک گورنر کے بیٹے کو قبطی غلام پر ایک کوڑا برسانے کی سزا بھری مجلس میں یہ کہہ کر دی گئی “متی تعبدتم الناس وقد ولدتھم امھاتھم احرارا” تم نے لوگوں کو کیسے غلام بنالیا جبکہ انکی ماؤں نے انھیں آذاد پیدا کیا ہے ۔

۔۔۔۔خلافت وہ ہوتی ہے جہاں بیت المال کو امانت تصور کیا جاتا ہو جہاں ایک عام آدمی بھی خلیفہ سے جواب طلب کرسکتا ہو، کہ اے امیر المؤمنین! یمن سے جو مال آیا تو اس کپڑے میں اتنا طول و عرض تو نہیں تھا کہ کرتا سلایا جاسکے ،تب آپ کے جسم پر یہ لمبا کرتا کیسے بن گیا؟

۔۔۔۔خلافت وہ ہوتی ہے جہاں خلیفہ سے ہر کوئی مل کر اپنے مسائل شئیر کرسکے، اظہار رائے کی مکمل آذادی ہر فرد کو حاصل ہو۔

۔۔۔۔۔خلافت وہ ہوتی ہے جہاں وقت کا امیر المومنین راتوں کو خدا خوفی سے گشت کرتا پھرتا ہے کہ کہیں کوئی ایک شخص بھی بھوکا سوجائے تو رب کی بارگاہ میں خلیفہ جوابدہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔خلافت وہ ہوتی ہے جہاں (Adviser council )شورائیت کے ذریعہ تقوی اور خدا خوفی کی بنیاد پر رائے دہی کی جائے ۔

۔۔۔۔خلافت وہ ہوتی ہے جہاں خدائی احکام کی مکمل پابندی ہو اور سزائیں و حدود کا نفاذ ایسا ہوکہ اعلان کردیا جائے ” خداکی قسم محمد کی بیٹی فاطمہؓ اور پھوپی صفیہؓ بھی اگر چوری کرتی تو اسکے ہاتھ کاٹ دیے جائیں “۔۔۔ان سنہرے اصولوں پر خلافت کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن !!

جب قدریں بدل جاتی ہیں ،خدائی احکام ٹوٹنے لگتے ہیں ،میزان عدل کے پلڑے ہلکے ہوجاتے ہیں، انصاف بکنے لگتا ہو،بیت المال امراء کی ملکیت بن جاتا ہو

۔۔۔۔جہاں شورائیت ختم کرکے جبری بیعت کی جائے اور امام مالکؒ کو بیعت پر مجبور کرتے ہوئے کوڑے برسائے جائیں اورہاتھ اکھاڑ دیے جائیں ۔

۔۔۔۔جہاں شہزادے ، سپہ سالار اور خوشامدی لوگ شوری کے ممبر بن جائیں ،عام فرد سے اظہار رائے کی آذادی چھین لی جائے ، الغرض ارکان شوری کی کسوٹی تبدیل ہو جائے ۔

۔۔۔۔جہاں خلیفہ شاہانہ ٹھاٹ کے ساتھ راستوں سے چلنے لگیں اور عام شہری سے ملاقات کرنے سے کترائے۔

۔۔۔۔۔جہاں بیت المال سے امانت کا تصور ختم ہو جائے اور وہ خلیفہ کی ملکیت بن جائے۔۔۔۔۔جہاں خلیفہ سے کسی سوال کے طلب کرنے پر سخت پابندیاں عائد کردی جائے ،جہاں ابوذر غفاریؓ جیسے حق پرستوں کے لیے زمین تنگ ہوجائے۔۔۔

ان بدلی ہوئی قدروں کے ساتھ خلافت کی قبا چاک ہوگئی ،خلافت تار تار ہوگئ جسے بچانے کے لیے میدان کربلا خون سے رنگین ہوا ،حق پرستوں نے قرآنی دستور کو بچانے کے لیے نیزوں پر اپنے سر گاڑھ دیے۔اپنے معصوموں کو شہید ہوتے دیکھا۔ دو فوجوں کے درمیان یہ دشمنی محض الحب للہ و البغض للہ کی خاطر تھی ،یہ شہادت علی الناس کا وہ منصب تھا جس کے لیے امام حسینؓ سینۂ سپر ہوگیے تھے، یہ کسی حکمران سے دشمنی کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ ختم ہوتی ہوئی اسلامی اسپرٹ کو بچانے کا مشن تھا۔ اسکا فکری پیغام رہتی دنیا تک امت کے لیے حرکت و عمل کا پیغام ہے، معروف کے قیام اور منکر کے ازالے کا پیغام ہے،قران کے اس حکم کی بجا آوری کا پیغام ہے،ومن اظلم ممن کتم شھادہ عندہ من اللہ ۔۔۔اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔

یہ مشن حق گوئی و بیباکی چاہتا ہے۔ قولی و عملی شہادتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ حق کے سامنے سینہ سپر ہوجانے اور ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے جانیں قربان کردینے کا پیغام دیتا ہے ۔

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

فتنہء ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!