بیدرضلع بیدر سے

یونیفارم سول کوڈ ناقابلِ قبول، بیدر میں صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا خالد خالد سیف اُللہ رحمانی کا بیان

ہمارا ملک مختلف مذاہب اور تہذیبوں سے جڑے ہوئے لوگوں کا ملک ہے۔ یونیفارم سول کوڈ نہ توقابل قبول ہے اور نہ قابل عمل، قانون میں یکسانیت سے زیادہ ملک کو اتحاد اور امن و انصاف کی ضرورت ہے۔ مولانا خالد خالد سیف اُللہ رحمانی

بیدر:7/جولائی(اے ایس ایم) تنظیم رابطہ ملت بیدر کی جانب سے بیدر شہر کی تاریخی جامع مسجد میں ایک خصوصی خطاب عام کا اہتمام کیا گیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے شرکت کرتے بعنوان ”ملکِ عزیز اور یکساں سیول کوڈ“ کے ضمن میں خصوصی خطاب بعنوان ”ملکِ عزیز اور یکساں سوِل کوڈ“ میں کہا کہ آزادی کے وقت ہندوستان کے تمام شہری بدیشی دشمن کے خلاف سیسہ کی دیوار بنے ہوئے تھے، اس وقت فکر و نظر، تہذیب، قومی مفادات، زبان، نسل اور جغرافیائی تعلق میں تفاوت کے باوجود جو چیز ان سب کو سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بنائے ہوئی تھی، وہ یہی تصور تھا کہ آزادی کے بعد یہ ملک سیکولرزم کی راہ پر چلے گا، ہر مذہب، ہر تہذیب اور ہر جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی انفرادی زندگی میں آزادی حاصل ہے، مسلمان جو مذہبی اعتبار سے زیادہ باحمیت واقع ہوئے ہیں، ممکن نہ تھا کہ وہ اس تیقن کے بغیر اس لڑائی میں شریک ہوتے، آزادی سے پہلے ہمیشہ ’قومی لیڈران‘ مسلم پرسنل لا کے تحفظ اور اس میں عدم مداخلت کا یقین دلاتے رہے۔پھر آزادی حاصل ہونے کے بعد جب ہندوستان کا دستور بنا، تو قانون کے سب سے اہم حصہ ’بنیادی حقوق‘ کی فہرست میں ایسی دفعات بھی رکھی گئیں، جن سے ”مسلم پرسنل لا“ کی حفاظت ہوتی ہے۔

مولانا نے کہا کہ ملک میں مذہبی آزادی ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت ملک کے آئین کی شق نمبر 25-28 میں دی گئی ہے۔ جس کے مطابق ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگی گزانے کا پورا حق حاصل ہے۔ دستور ہند کی آرٹیکل 25 میں مذہبی قوانین کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔جس میں ہر شہری کو مذہبی عقائد پر قائم رہنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت ہے۔ دستور ہند نے ملک میں بسنے والے ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت دی ہے، اور اس کو بنیادی حقوق میں شامل رکھا گیا ہے۔اسی حق کے تحت اقلیتوں اور قبائلی طبقات کے لئے اُن کی مرضی اور روایات کے مطابق الگ الگ پرسنل لا رکھے گئے ہیں، جس سے ملک کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے، بلکہ آپستی اتحاد اور اکثریت و اقلیت کے درمیان باہمی اعتماد کو قائم رکھنے میں اس سے مدد ملتی ہے۔

مولانا محترم نے کہا کہ حالیہ دنوں میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں، اور لاء کمیشن آف انڈیا نے ملک کے باشندوں سے یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں رائے مانگی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ملک کے باشندوں سے یہ اپیل کی ہے کہ اس سلسلے میں لاء کمیشن آف انڈیا کو ضرور جواب بھیجیں، ہمارا ملک مختلف مذاہب اور تہذیبوں سے جڑے ہوئے لوگوں کا ملک ہے، اس لیے یہاں یونیفارم سول کوڈ نہ توقابل قبول ہے اور نہ قابل عمل، قانون میں یکسانیت سے زیادہ ملک کو اتحاد اور امن و انصاف کی ضرورت ہے اس لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ گذارش کی ہے کہ عوامی احتجاج اور سڑکوں پر نکلنے سے احتیاط برتی جائے اور ہمت و حکمت پر مبنی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔

مولانا خالد سید اُللہ رحمانی نے کہا کہ یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے، مسلمانوں نے اس ملک کے لئے جو قربانیاں دی ہیں، وہ صرف اس لئے نہیں کہ اس ملک میں رہنے کے لئے چندگز زمین حاصل ہو جائے اور ان کے خورد و نوش کا انتظام ہوجائے، بلکہ انہوں نے اپنے دینی تشخص اور تہذیبی شناخت کے ساتھ اس ملک میں جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ نہ صرف مسلمانوں کا مطالبہ ہے، بلکہ یہ ملک میں بسنے والی دوسری اقلیتوں اور آدی واسیوں کا بھی مطالبہ ہے، ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی ملک میں یکساں خاندانی قوانین قابل عمل نہیں ہیں، اگر بداندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت نے ایسا کوئی قانون مسلط کرنے کی کوشش کی تو مختلف طبقات میں محرومی کا احساس پیدا ہوگا، حب الوطنی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی اور یہ ملک کے امن و امان کے لئے خطرناک ہوگا۔

مولانا محترم نے کہا کہ بورڈ کی جانب سے اس بات پر زور دیاگیا ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے، بلکہ ایک محب وطن شہری ہونے کے اعتبار سے بھی ہم اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام مذہبی اور تہذیبی اکائیوں کو دستور ہند کے مطابق اپنے تشخصات کے ساتھ رہنے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور ان پر زبردستی کوئی قانون مسلط نہیں کیا جائے۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف کے خلاف سپریم کورٹ میں حکومت ہند کی طرف سے داخل کئے جانے والے حلف نامہ اور لاء کمیشن کی طرف سے کومن سول کوڈ کے بارے میں جاری کئے جانے والے سوال نامہ کے پس منظر میں مسلمانوں نے زبردست اتحاد، ہم آہنگی اور اشتراک عمل کا ثبوت دیا ہے، اور مسلک و مشرب اور تنظیمی و جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر پوری ملت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے، فرقہ پرست طاقتوں نے خاص طور پر مسلم پرسنل لا کے تحت آنے والے ایک ایسے مسئلہ کو اٹھایا ہے کہ جس کا مقصد مسلکی اختلاف کو ہوا دینا اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا تھا، لیکن مسلمانوں کی مذہبی اور ملی قیادت لائق تحسین ہے کہ اس نے مخالفین کے اس خواب کو چکنا چور کردیا، لہٰذا پوری ملت کا فریضہ ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق کی اس فضاء کو قائم رکھے اور ہرگز کسی ایسی سازش کا شکار نہ ہو جو ہماری صفوں میں بکھراؤ پیدا کردے۔

مولانا نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی یہ لڑائی اکثریتی فرقہ یا کسی خاص مذہب پر یقین رکھنے والوں کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ ان فرقہ پرستوں اور فاشست طاقتوں کے خلاف ہے، جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو برباد کرنے اور اس کی جمہوری قدروں کو پامال کرنے پر تلی ہوئی ہے، اوراِس لئے جو لوگ اس ملک سے محبت رکھتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ وطن عزیز امن و آشتی کا گہوارہ ہو اور کثرت میں وحدت کے اصول پر کاربند رہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ ان تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ دستور میں دی گئی ضمانت کے مطابق مذہبی آزادی کے حق کے تحفظ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ساتھ دیں۔خصوصی طورپر مولانا نے کہا کہ حکوت مسلم خواتین پر ظلم و زیادتی کا جھوٹا بنایا ہوا بہانہ لے کر اپنی جھوٹی ہمدردی جتائی رہی ہے۔اسلام وہ مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندکی گزارنے کا ایک نقشہ دیتا ہے۔اپنے ماننے والوں کے حقوق بھی وہ صاف صاف بتاتا ہے اور فرائض بھی۔ قرآن مجید جس طرح مردوں کو مخاطب کرتا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہدایات دیتا اور ان سے مطالبات کرتا ہے۔

اسلام کی رو سے دین کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اِنسانی مرتبے میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ جسمانی اعتبار سے اور دائرہ کار کے لحاظ سے اگرچہ دونوں میں فرق ہے مگر بحیثیت انسان دونوں برابر ہیں۔اسلام نے مرد اور خواتین کوباہم ایک دوسرے کے ولی اور نیکی کے کاموں میں معاون قرار دیا ہے۔ اسلام کی روسے وراثت میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کا بھی حق ہے۔ قرآن مجید میں صاف صاف کہا گیاہے کہ ماں باپ کی وراثت میں لڑکیوں کا بھی حصہ ہے۔ اس طرح عورت بیٹی،بیوی، ماں وغیرہ مختلف حیثیتوں سے میراث میں حصہ دار قرار پاتی ہیں۔

مولانا نے مسلمانوں سے اپیل کہ سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو لنک اور کیو آر کوڈ جاری کیا ہے۔https://tinyurl.com/nouccisAIMPLB لنک کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ اس پر آپ کلک کریں تو ای میل کھل جائے گا اور لکھا ہوا مضمون آپ کے سامنے آئے گا آپ اس پر کلک کر کے لاء کمیشن آف انڈیا کو جواب بھیج سکتے ہیں۔اسی طرح کیو آر کوڈ کو اسکین کرنے سے بھی مضمون سامنے آجائے گا جسے ای میل کیا جاسکتا ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر تاسیسی رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و صدر رابطہ ملت بیدر نے ائمہ مساجد سے خصوصی اپیل کی ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کے موقع پر مصلیانِ مسجد کو یونیفارم سیوِل کوڈ کے بارے میں بتاتے ہوئے مُختصر روشنی ڈالیں۔مسلمانان ہند اور مختلف اقلیتیں اور مذہبی اور تہذیبی گروہ اور انصاف پسند افرادلاء کمیشن آف انڈیا کو یہ لکھ کر بھیجیں کہ یونیفارم سول کوڈ ہمارے ملک کیلئے مناسب نہیں ہے۔

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے جو کیو آر کوڈ اور لنک جاری کی گئی ہے اسے زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور اس کے ذریعے لا کمیشن آف انڈیا کو جواب بھیجا جائے۔لا کمیشن کو جواب بھیجنے کیلئے بیدر بیٹرمنٹ فاؤنڈیشن بیدر کرناٹک کے 500والینٹئیرس بیدر شہر میں رہنمائی کیلئے بیدر میں 9مراکز قائم کئے ہیں۔پروگرام کا آغاز قراء تِ کلام پاک ہوا۔ خطاب عا میں خواتین کیلئے علیحدہ پردہ کا معقول ان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!