حالاتِ حاضرہمضامین

نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز

از : ایس-امین الحسن

جماعت اسلامی ہند ، کرناٹک کے امیر حلقہ ، ڈاکٹر بلگامی محمد سعد صاحب ، ‘سیدھی بات’ چینل کے اینکر سے گفتگو کررہے ہیں جس کا لنک نیچے دیا گیا ہے۔ ان کے 25 منٹ کا یہ انٹرویو قیادت کے موضوع پر 25 گھنٹے کی کلاس کے برابر ہے۔ وہ ایک شہرت یافتہ قابل سرجن ہیں اور ایک سماجی رہنما بھی۔

بنگلور میں پچھلے ہفتے پیش آمدہ توہین رسالت کا بدقسمت واقعہ اور اس کے بعد ہونے والے فسادات قابل مذمت ہیں ۔ اس انٹرویو میں ڈاکٹر بلگامی صاحب نے اس کے تانے بانے کھولنے کی کوشش کی ہے۔ فسادات کے متعلق معروف راےء اور تاثرات کے برخلاف انہوں نے مظاہرین اور فسادیوں میں فرق کیا ہے۔ یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ احتجاج شہریوں کا ایک حق ہے جبکہ سوشل میڈیا پوسٹ ان نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے مجرم ہے جو پیغمبر، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے جیسے مذہبی آبادی والے ملک میں اظہار رائے کی بے قید آزادی کے مضحکہ خیز تصور پر بھی سوال اٹھایا ہے۔انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ناکامی قبول کرے چونکہ اس نے مجرم کو سو موٹو گرفتار نہیں کیا۔‌ اگر ایسا کیا جاتا تو نہ جذبات بھڑکتے اور نہ دوسروں کو فساد کرانے کے مواقع ملتے۔ مزید برآں ، بنگلور فسادات کے پیچھے چھپے ہوئے ہاتھوں کا پتہ لگانے کے لئے انٹلیجنس کی جانب سے عدم توجہی سے مسلم معاشرے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ واقعے کے ان لطیف گوشوں پر محیط خیالات کو انہوں نے محتاط انداز اور جچی تلی زبان میں اظہار کیا ہے۔

بغیر کسی قانونی طریقہ کار پر عمل کیے اور اصل مجرموں کی طرف سے آنکھ بند کر کے ، بے گناہ مسلم نوجوانوں کو فسادات کے بہانے ان کے گھروں سے اٹھا لینا، قانون کے رکھوالوں کی طرف سے امن و امان کی دھجیاں بکھیر دینے کے مترادف ہے۔ اس مشاہدہ کا اظہار بھی انہوں نے۔

آپ اس انٹرویو میں وژن ، نظریات کی وضاحت ، دلیری ، زمین پر سرگرمی و کارروائی اور کمیونیکیشن کی عمدہ مہارتیں دیکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بلگامی نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف سوالات کھڑے کیے ہیں بلکہ آگے کی راہ بھی انہوں نے کھولی ہیں۔

انہوں نے سٹی پولیس کمشنر سے ملاقات کے لئے ایک وفد کی قیادت کرکے انتظامیہ کے ضمیر کے دروازوں پر دستک دی ، جس کا رسپانس عادلانا اور منصفانہ تھا۔

شھدا، جنھوں نے اپنی جان دے کر گواہی دی کہ ہمارے نبی کی عصمت کا تحفظ ان کے لئے جان سے زیادہ قیمتی ہے، کے اہل خانہ کی تعزیت و اظہار غمخواری کے لےء ملی رہنماؤں کے ہمراہ ڈاکٹر صاحب ان کے گھروں کو پہونچ گےء، بار بار یہ مشاہدہ ہوا ہے کہ کچھ رہنما اجتماعی کاموں میں ڈاکٹر بلگامی صاحب اور ان کی مضبوط و موثر جماعت کو اس خوف سے پیچھے چھوڑ دیتے کہ کہیں وہ ان کے زیر اثر نہ ہوجائیں ۔ جبکہ ڈاکٹر بلگامی صاحب کا یہ حسین رویہ ہے کہ ملی کاموں میں وہ تمام مسلک و سیاسی رجحانات کے لیڈرز کو شامل رکھتے ہیں اور سب کے ساتھ شانہ بشانہ چلنا پسند کرتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ وہ ایک قدآور رہنما ہیں۔

انٹرویو کے اختتام پر انہوں نے وبائی مرض کے پیچھے اخلاقی وجوہات پر اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرتے ہوئے برادران وطن کے سامنے اسلامی تعلیمات پیش کیں ہیں۔

اللہ تعالی ان کی مساعی جمیلہ کو قبول

قابل مبارکباد ہیں ڈاکٹر صاحب اینکر اور چینل.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!