سماجیمضامین

وطن سے محبت

محمد خیرالمبین، بسواکلیان

وطن سے محبت کا مطلب کیا ہے؟ وطن سے محبت کامطلب انسانوں سے محبت ہے۔ اہل وطن انسان ہیں اس لیے وطن سے محبت انسانوں سے محبت کا دوسرا نام ہے۔ وطن کی خاک کوئی چیز نہیں، وطن کے درخت دریا پہاڑوں اور میدان کوئی قیمت نہیں رکھتے۔ شہر میں ایک فرد بشر بھی نہ رہے تو اس کی مٹی پانی اور دریاؤں کی قیمت کون لگائے گا؟

ایسے چٹیل میدانوں پر کوئی رونے والا ہوگا اور نہ کوئی ہنسنے والا۔ وطن کی محبت اس لئے ہے کہ اس میں ہم جیسے انسان رہتے ہیں انسانوں کو نکال دو وطن کی محبت خاک میں مل جائے گی، ساری دنیا میں دراصل انسان کی انسانوں سے محبت مقدم ہے۔

اس معنی میں وطن کی محبت صرف انسانوں سے محبت رہ جاتی ہے اور انسانی محبت سے آفاقی اور عالمی انسانیت کا تصور پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان دنیا کے ہر گوشے میں رہتے ہیں اور ہماری انسانیت میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں اگر انسانیت کو درمیان سے نکال دیا جائے تو اس کا اصلی وطن اس کا اپنا گھر ہوتا ہے جہاں وہ پیدا ہوتا ہے اور بڑا ہوکر اسکا وارث بنتا ہے اگر گھر سے باہر بھی ہمارا وطن ہے اور ہم اپنے اپنے ضلع اور اپنے صوبے کی حد تک وطن کے حدود توسیع کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان میں بس سے ان حدود کو وسعت دے کر ان سارے مقامات تک نہ پہنچایا جائے جہاں جہاں انسان بستے ہیں۔

اپنے محدود خطے کہ بجائے آفاقیت کو اپنائے جو بھی صاحب فہم ہیں اصول پر غور کرے گا وہ اس نتیجے پر بہت پر جلد پہنچے گا کہ انسانیت خطہ زمین پر مقدم ہے۔ ہندوستانی، جاپانی، چینی، امریکی، مشرقی، مغربی یا عربی، عجمی بعد کوہیں۔ کیونکہ انسانیت عام ہے اور تمام انسانوں سے ہمارا رشتہ ہے وطن انسانیت سے پیچھے ہے وطن اور ملک الگ الگ ہیں یہی حال دنیا کے تمام ممالک کا ہے لیکن دنیا کی تمام انسانوں میں انسانیت ایک اور مشترک ہے۔ ہندوستانی بھی انسانی اور پاکستانی بھی انسان ہیں۔ پس کلیہ یہ ٹھہرا کے انسانیت کو وطن پر تقدم حاصل ہے۔

محب وطن وہی ہوگا جو محبِ انسانیت ہوگا۔ جو تمام انسانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے گا، جو سب کے حقوق کو برابر حقوق مانےگا۔ مختصر احترام آدمیت کا علمبردار ہوگا اور یہ کہ وطن کی محبت سے مراد انسانیت سے محبت اور اہل وطن سے محبت ہے، کہ وہ انسان ہیں اور انسان ساری دنیا میں بستے ہیں اور تمام ملکوں میں ان کا بسیرا ہے لہذا ہمارا رشتہ ساری دنیا سے ہے۔

حب الوطن اور ہندوستانی ہونے کے لئے بنیادی اور اولین شرط یہ ہے کہ ہندوستانی اپنے ملک کے ایک ایک فرد کو اپنا جیسا سمجھے قانونی مذہبی لسانی اور نسلی اعتبار سے کسی کے ساتھ امتیاز کا سلوک نہ ہو سماجی حلقوں سے کسی کو محروم نہ ہونے دیا جائے۔ ذات پات کی بنیاد پر طبقات میں تقسیم اور اس تقسیم کی بنا پر سماج کی بنیاد میں جو برائیاں پیدا ہوتی ہے ان میں سرفہرست علیحدگی پسندی اور انسانیت دشمنی ہے اور ان برائیوں سے لازمی طور پر دہشت گردی یا جارحیت پیدا ہوتی ہے اور جو قوم آپس میں دہشت گردی کے مرتکب ہو اسے قوم کہنا قوم کی تو ہین ہے۔

ان تصریحات کی روشنی میں روزہ جارحیت لاقانونیت انسان دشمنی کی خبروں کو پڑھیے اور خود تصفیہ فرمائیں کہ ہم کس حد تک محب وطن ہیں! کیا حب الوطنی نام کی کوئی چیز اس ملک میں پائی جاتی ہے کیا کوئی پنجابی، آسامی، کشمیری ہوں کہ مدراسی حب الوطنی کا دعوی کر سکتا ہے محب وطن لوگوں وہی ہوتے ہیں جو انسانی مساوات کے احترام کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اور اس پر بھرپور سچا ایمان رکھتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ انسانی مساوات سے بیگانہ ہیں انہیں سب سے پہلے ہوئے حب انسانیت بتلائی جائے اورپھر ہندوستانی بننے کا پیغام دیا جائے ساتھ ہی ان کی روایات اور اقدار کی روشنی میں زمانے کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔

جب تک اہل وطن سے محبت کی بنیاد قائم نہ ہوں جرات کے ساتھ اس کا اعلان کر دیا جائے کہ علیحدگی پسند، انسانیت دشمن، دہشتگرد اور جارحیت کے مرتکب کبھی محب وطن نہیں ہوسکتے۔ ایسے لوگوں کو ہندوستانی قرار دینا ہندوستان پر ظلم ہے۔

پر مسلمان محب وطن ہوتا ہے جب طائف میں شریروں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھروں سے لہو لہان کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الہی میں فریاد کرتے ہوئے فرمایا: میرے پروردگار! میری قوم کو مجھ پر تیری نازل کردہ ہدایت کو سمجھنے کی بصیرت دے وہ نہیں جانتے کہ میں کون ہوں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفوں اور غیر مسلموں کو اپنی قوم کہ کریاد فرمایا کیونکہ قوم کا تعلق وطن سے ہوتا ہے، وطن کی محبت وطن میں رہنے بسنے والے تمام انسانوں سے محبت کی سند ہوتی ہے، جسے ہم حب الوطنی کہتے ہیں اور اہل وطن کی یہی محبت ہم کو ساری انسانیت سے محبت کا پیغام دیتی ہے۔ اس لیے قرآن حکیم نے ہمیں وحدتِ انسانیت کا درس دیا ہے اور یہ سچ ہے وطن کے لئے دنیا کے سارے انسانوں سے محبت ہی خدا سے محبت ہے۔

One thought on “وطن سے محبت

  • عبداللہ آزاد

    Abhi ek autorickshaw ke peeche likha hua dekha “we are indians, firstly and lastly.”

    According to your article my perception is, ” we are humans, firstly and lastly.”.

    Reply

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!