خواتینمذہبیمضامینمعلوماتی

میراث میں خواتین کا حصہ اور اس سے محرومی، اسباب، اثرات و نتائج

از: ثناآفرین عمري بنتِ عبدالمجید گلبرگہ

اسلام سے پہلے دنیا کے مختلف مذاہب میں قانونِ میراث بہت ہی غیر متوازن تھا, بعض مذاہب میں صرف لڑکوں کو حصہ ملتا تھا اور لڑکیاں میراث سے محروم کردی جاتی تھیں, اور بعض مذاہب میں پہلا بڑا بیٹا پورے ترکہ کا حق دار سمجھا جاتا تھا, اسلام نے اس ناانصافی اور بے اعتدالی کو ختم کر کے ایک نہایت متوازن اور عادلانہ نظامِ میراث قائم کیا, جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی ترکہ کا حق دار بنایا گیا.

آیاتِ میراث میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے میراث کے حق داروں کا ذکر فرمایا ہے, اور مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق کی بھی صراحت فرمائی, انہی آیات کی روشنی میں آنے والے سطور میں میں میراث میں نسبی عورتوں کے حقوق کو جگہ دونگی:

1) بیٹی (Daughter) کے تین حقوق ہیں:

  1. نصف(½): جب وہ اکیلی ہو اور میت کا بیٹا نہ ہو.
  2. ثلثان(⅔): جب وہ دو ہوں یا دو سے زائد ہوں اور بیٹا نہ ہو.
  3. عصبہ بغیرہ: جب اس کے ساتھ میت کا بیٹا ہوتو وہ عاصب بنتی ہے.

2) پوتی (Grand Daughter) کے پانچ حقوق ہیں:

  1. نصف(½): جب وہ اکیلی ہو بشرطیکہ میت کا بیٹا یا پوتا نہ ہو.
  2. ثلثان(⅔): جب وہ دو یا دو سے زائد ہوں بشرطیکہ بیٹا یا پوتا نہ ہو.
  3. سدس(1/6): جب پوتیوں کے ساتھ بیٹی ہو جو نصف پارہی ہو بشرطیکہ بیٹا یا پوتا نہ ہو.
  4. عصبہ بغیرہ: جب یہ پوتیوں کے ساتھ پوتا یا پڑپوتا ہو بشرطیکہ بیٹا نہ ہو.
  5. محروم: جب میت کا بیٹا یا دو یا دو سے زائد بیٹیاں ہوں (جو ثلثان پارہی ہوں) بشرطیکہ پوتا یا پڑپوتا نہ ہو.

3) ماں (Mother) کے تین حقوق ہیں:

  1. سدس(1/6): جب میت کی کوئی فرع ہو یا دو یا دو سے زائد بھائی بہنیں ہوں.
  2. ثلث(⅓): جب میت کی کوئی فرع نہ ہو یا بھائی بہنوں میں سے کوئی نہ ہو یا ایک ہو.
  3. ثلث مابقی: جب کسی مسئلہ میں ماں کے ساتھ باپ بھی ہو اور شوہر/بیوی میں سے کوئی ہو بشرطیکہ میت کی کوئی فرع نہ ہو یا ایک سے زائد بھائی بہنیں نہ ہوں جیسے: شوہر, ماں, باپ بیوی, ماں, باپ.

4) دادی/نانی(Grand Mother) کے دو حقوق ہیں:

  1. سدس(1/6): جب میت کی ماں یا اس سے قریبی دادی/نانی ہو, دادی/نانی اکیلی ہو یا دونوں موجود ہوں سب سدس میں برابر شریک ہونگی.
  2. محروم: جب میت کی ماں یا اس سے قریبی دادی/نانی ہو.

5) سگی بہن (Sister) کی پانچ حقوق ہیں:

  1. نصف(½): جب وہ اکیلی ہو بشرطیکہ میت کا بھائی, بیٹا, بیٹی, باپ اور دادا نہ ہوں.
  2. ثلثان(⅔): جب سگی بہنیں دو یا دو سے زائد ہوں بشرطیکہ میت کا بھائی, بیٹا, بیٹی, باپ, اور دادا نہ ہوں.
  3. عصبہ بغیرہ: جب اس کے ساتھ سگا بھائی ہو بشرطیکہ میت کا بیٹا, پوتا, باپ اور دادا نہ ہوں, چاہے سگی بہن ایک ہو یا ایک سے زائد ہو.
  4. عصبہ مع غیرہ: جب وہ میت کی ایک یا کئی بیٹیوں یا پوتیوں کے ساتھ ہوں بشرطیکہ میت کا بیٹا, پوتا, باپ, دادا اور سگے بھائی نہ ہوں, سگی بہن ایک ہوں یا ایک سے زائد.
  5. محروم: جب میت کا بیٹا, پوتا, باپ, دادا ہوں.

6) باپ شریک بہن (Paternal Sister) کے چھ حقوق ہیں:

  1. نصف(½): جب وہ اکیلی ہو بشرطیکہ میت کا بیٹا, بیٹی, پوتا, پوتی, باپ, دادا, سگے بھائی, سگی بہنیں اور باپ شریک بھائی نہ ہوں.
  2. ثلثان(⅔): جب وہ دو یا دو سے زائد ہوں بشرطیکہ میت کا بیٹا, بیٹی, پوتا, پوتی, دادا, سگے بھائی, سگی بہنیں اور باپ شریک بھائی نہ ہوں.
  3. سدس(1/6): جب ان کے ساتھ ایک سگی بہن ہوں (جو نصف پارہی ہو) بشرطیکہ میت کا بیٹا, پوتا, بیٹی, پوتی, باپ, دادا, سگے بھائی اور باپ شریک بھائی نہ ہوں.
  4. عصبہ بغیرہ: جب ان کے ساتھ ساتھ باپ شریک بھائی ہو بشرطیکہ میت کا بیٹا, پوتا, باپ, دادا, سگے بھائی اور سگی بہنیں نہ ہوں.
  5. عصبہ مع غیرہ: جب میت کی ایک یا کئی بیٹیوں کے ساتھ ہو, بشرطیکہ میت کا بیٹا, پوتا, باپ, دادا, سگی بہنیں اور باپ شریک بھائی نہ ہوں.
  6. محروم: جب میت کا بیٹا, پوتا, باپ, دادا, سگے بھائی, سگی بہنیں ہوں, اور اسی طرح جب سگی بہنیں دو یا دو سے زائد ہوں تو باپ شریک بہنیں محروم ہوجاتی ہیں الا یہ کہ باپ شریک بھائی بھی موجود ہوتو عصبہ بالغیر بن جاتی ہے.

7) ماں شریک (Maternal Sister) کے تین حقوق ہیں:

  1. سدس(1/6): جب وہ اکیلی ہو, بشرطیکہ میت کی کوئی فرع, باپ, دادا نہ ہوں.
  2. ثلث(⅓): جب دو یا دو سے زائد ہوں بشرطیکہ میت کی کوئی فرع, باپ, دادا نہ ہوں.
  3. محروم: جب میت کی کوئی فرع یا باپ, دادا ہوں.

8) بیوی (Wife) کے دو حقوق ہیں:

  1. ربع(¼): جب میت (شوہر) کی کوئی اولاد نہ ہو.
  2. ثمن(⅛): جب میت (شوہر) کی کوئی اولاد ہو.

میراث سے خواتین کی محرومی, اسباب, اثرات ونتائج:

اسلام وہ دین ہے جس نے سب سے پہلے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی وراثت میں حق دار ٹھہرایا, حالانکہ اس وقت کے جزیرۃ العرب کے معروضی حالات عورتوں کے حوالے سے فرسودہ نظریات کے حامل تھے, بچیوں کو زندہ درگور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے, ایسے ماحول میں اسلام کے متوازی نظام اقتصاد کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کو مالی تحفظ دیا گیا, لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشروں میں ہماری بہن بیٹی عملا ان حقوق سے محروم ہے جن کا بیان قرآن کی آیات اور نبیﷺ کے ارشادات میں موجود ہے۔ اسلام عورت کو وراثت کا حقدار بتاتا ہے جب کہ معاشرہ جبر کر کے ان کے حقوق کو سلب کر رہا ہے جس کے اسباب وعلاج اور مضر اثرات پر میں روشنی ڈالونگی,

خواتین کی وراثت سے محرومی کے اسباب اور اس کا علاج:

  1. جہالت: {آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا} تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے۔ [النساء: 11]
  2. مال پرستی اورلالچ: {وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا } اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھاجاتے ہو۔اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔ [الفجر: 19، 20]
  3. انکار منکر کا فقدان: چور اور سود خور تو برا ہے مگر میراث خود برا نہیں جانا جاتا.
  4. جہیز: جیساکہ معروف ہے.
  5. ناشکری: {لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ} اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔ [إبراهيم: 7]

علاج:
مذکورہ بالا سارے اسباب کا خاتمہ ہی اصل علاج ہے۔

خواتین کو وراثت سے محروم کرنے کے اثرات ونتائج:

  1. ماحول ومعاشرہ میں سرِعام اللہ کے قوانین کی پامالی
  2. بھائی بہنوں میں نفرت کا بازار گرم
  3. معاشرہ ظلم وزیادتی ناانصافی, جہیز جیسی خصائلِ مذمومہ کا شکار
  4. خاندان ومعاشرہ میں لعن وطعن, قتل وغارت گری, خود کشی کی فضا عام
  5. خواتین احساسِ کمتری کا شکار
  6. سماج میں مختلف برائیوں جیسے حق تلفی, عورتوں کا گھروں سے بھاگ جانا وغیرہ کا رواج
  7. رشتوں میں دراڑ اور آپسی رنجشوں کا چلن عام
  8. آخرت میں جہنم

خلاصہ: ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے سے فرسودہ رسم و رواج کو ختم کر کے ہر حقدار کو اس کا حق دلایا جائے, سیاسی تنظیمیں عورتوں کے حقوق وراثت کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں, علمائے کرام منبر و محراب سے اپنی بہنوں, بیٹیوں کے حقوقِ میراث کی آواز بلند کرکے اپنے حصے کا قرض چکائیں, تقسیم میراث میں کوتاہیاں عام ہو چکی ہیں, شرعی اصولوں کے مطابق تقسیمِ جائیداد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے, ہرروز اتنی طلاقیں نہیں ہوتیں جتنے کہ لوگ فوت ہوتے ہیں لیکن مفتیانِ شرع کے پاس طلاق کے مسائل کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جبکہ اکا دکا وراثت کا مسئلہ کوئی پوچھتا ہے کیونکہ اس کو اہمیت ہی نہیں دیتے, لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے تمام سرکردہ طبقات اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرکے اس اہم سماجی مسئلہ کو حل کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!