اترپردیشٹاپ اسٹوریریاستوں سے

یوپی میں 4 دنوں کے 4 واقعات بتاتے ہیں کہ کتنی مشکل ہوگئی ہے مسلمانوں کی زندگی!

اتر پردیش میں صرف چار دنوں کے اندر چار بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ہر واقعہ ایک دوسرے سے زیادہ خوفناک ہے اور سماج میں انصاف اور حکومتی غیر جانبداری کے حوالے سے مایوسی پیدا کرتا ہے۔

آس محمد کیف

کاس گنج پولیس اسٹیشن میں 9 نومبر کو 21 سالہ نوجوان الطاف کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔ 10 نومبر کو ڈاکٹر کفیل خان کو برطرف کر دیا گیا۔ 11 نومبر کو غازی آباد کے لونی علاقے میں مویشیوں کی اسمگلنگ کے الزام میں پولیس نے مبینہ مقابلہ کے دوران مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے ولے 7 نوجوانوں کے پیر میں گولی مار دی۔ 12 نومبر کو آگرہ کے شاہ گنج علاقے میں ایک جواں سال خاتون کی خودکشی کے بعد اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا اور اس کے بعد پتھراؤ اور فائرنگ کی گئی۔

اتر پردیش میں صرف چار دنوں کے اندر چار بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ہر واقعہ ایک دوسرے سے زیادہ خوفناک ہے اور سماج میں انصاف اور حکومتی غیر جانبداری کے حوالے سے مایوسی پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ریاست کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی پروپیگنڈہ مہم مسلمانوں کے تئیں نفرت کو فروغ دیتی نظر آتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے ایام میں اس طبقہ کے خلاف ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اسے اکثریتی طبقہ کے ایک حصے کی طمانیت (تشٹی کرن) کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کاس گنج کے نگلہ سید احرولی میں 21 سالہ نوجوان الطاف کی قبرستان میں تدفین ہو چکی ہے لیکن وہ اب بھی اس کے والد چاند میاں کے خواب میں نظر آ رہا ہے۔ چاند میاں بتاتے ہیں کہ آنکھیں بند کرتے ہی الطاف نظر آنے لگتا ہے اور پھر میری آنکھیں بالکل نہیں لگتی! چار روز کی مسلسل کوششوں کے بعد کل (ہفتہ) الطاف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے الطاف کو 8 نومبر کو ان کے گھر سے بلایا تھا۔ اس پر ایک مقامی لڑکی کو ورغلانے کا الزام تھا۔ لڑکی کا تعلق اکثریتی طبقہ سے تھا اور اس کی بازیابی ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔

الطاف کے اہل خانہ اور مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکی کسی اور لڑکے کے ساتھ فرار ہو گئی تھی۔ الطاف کی موت کاس گنج شہر کوتوالی میں واقع ہوئی تھی۔ پولیس نے بیان دیا ہے کہ الطاف نے بیت الخلا کی ٹونٹی سے لٹک کر خودکشی کی ہے، جبکہ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ الطاف کی موت پولیس کی پٹائی سے ہوئی ہے اور اسے جان بوجھ کر قتل کیا گیا ہے۔ اتر پردیش کی حزب اختلاف حراست میں ہونے والی اس موت کے حوالہ سے چراغ پا ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔

کاس گنج کے ہی رہائشی اور سماج وادی پارٹی کے ترجمان عبدالحفیظ گاندھی کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے چار دنوں سے الطاف کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ اس دوران الطاف کے والد کے مزاج کو سمجھنا مشکل ترین رہا ہے۔ میں نے ان کے درد کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ الطاف کے خاندان کی مالی حالت بہت کمزور ہے۔ ایسے گھرانوں میں جوان بیٹا بڑی امیدوں کا چراغ ہوتا ہے۔ گھر والوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کمانے لگے گا تو گھر میں چراغ روشن ہوگا! ان کی موت کے بعد پولیس اہلکاروں کی طرف سے کاغذ پر سمجھوتہ لکھوانا اور الطاف کے والد کا انگوٹھا لگوانا اور بھی تکلیف دہ ہے۔

اس معاملے میں معاوضے کے حوالے سے بھی امتیازی سلوک دیکھا گیا ہے۔ واقعے کے چار روز بعد نامعلوم مقام پر مقدمہ درج کر لیا گیا جبکہ الطاف کے والد کو تاحال کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے، یہ بات اس سے پہلے کی حراستی موت کے مقدمات سے مختلف ہے۔ حفیظ کا کہنا ہے کہ انہیں شبہ ہے کہ مقدمے کے اندراج کے بعد بھی پولیس اس معاملے میں منصفانہ کارروائی کر سکے گی اور مجرموں کو سزا ملے گی۔

اتر پردیش کا کاس گنج ضلع علی گڑھ، آگرہ اور ہاتھرس کے قریب ہے۔ علی گڑھ سے کاس گنج ایک گھنٹے سے بھی کم کی دوری پر ہے۔ چار سال پہلے، کاس گنج شہر کے مرکز میں ترنگا یاترا کا ہنگامہ ہوا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں سے اس لودھ، راجپوت اور مسلم اکثریتی پٹی پر نفرت کی کھیتی کی جا رہی ہے۔ پٹیالی کی سابق ایم ایل اے زینت خان اور سماج وادی پارٹی لیڈر کی بیٹی ناشی خان اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والی ناشی خان کا کہنا ہے کہ انتہائی مضحکہ خیز بیانات اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہو رہی ہے۔ پولیس انتظامیہ حکمرانوں کے دباؤ میں ہے۔ جب دو مختلف طبقوں سے متعلق معاملات کی بات آتی ہے تو انہیں فیصلے لینے میں مشکل پیش آتی ہے اور خاص طور پر ایک طبقہ کے ساتھ سختی کی جاتی ہے۔ الطاف کی موت اسی بنیادی جذبہ سے ماخوذ ہے۔ بعض مقامات پر انتظامی امتیاز بھی صاف نظر آ رہا ہے۔

کاس گنج سے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلہ پر واقع آگرہ کے شاہ گنج علاقے میں گزشتہ دو دنوں سے کشیدگی ہے اور فورس تعینات ہے۔ یہاں کے ایک نوجوان ارمان نے دوسرے طبقہ کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ جس کے بعد وہ اپنے خاندان سے الگ رہنے لگا۔ جمعہ کے روز ارمان کی اہلیہ کی موت مشکوک حالات میں ہو گئی۔ اس کے بعد ہندوتوادیوں کی بھیڑ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ کچھ دکانوں پر توڑ پھوڑ اور مارپیٹ کے واقعات بھی پیش آئے۔ اس کے بعد دونوں فریق آمنے سامنے آ گئے اور شدید پتھراؤ اور فائرنگ کی گئی۔ جبکہ پولیس فائرنگ کے امکان سے انکار کر رہی ہے۔

شاہ گنج کے رہائشی ندیم احمد کا کہنا ہے کہ پولیس کو اپنا کام کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے تھی۔ وہ تحقیقات کر کے کارروائی کرتے لیکن ہندوتوا طاقتوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور اب ماحول کشیدہ ہو گیا ہے۔ پولیس بھی ان کے سامنے بے بس دکھائی دی ہے۔ ندیم کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ایسے بہت سے معاملات سامنے آئے ہیں جنہیں فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے۔ اس سے اقلیتی مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔

ایسا ہی ایک مسئلہ گورکھپور کے بی آرڈی کالج کے ڈاکٹر کفیل خان سے متعلق ہے۔ کفیل خان کو حال ہی میں ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ معطلی کی زد میں تھے۔ ڈاکٹر کفیل خان 4 سال پہلے اس وقت زیر بحث آئے تھے جب گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی کے باعث متعدد بچوں کی موت ہو گئی تھی اور انہوں نے آکسیجن کے بندوبست کی کوششیں کی تھی۔ برطرف ڈاکٹر کفیل خان نے بتایا کہ انہیں ابھی تک آرڈر نہیں ملا لیکن انہیں حکومت سے انصاف کی امید نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’عدالت میں 10 نومبر کو سماعت ہوئی تھی اور حکومت نے وہاں کوئی برطرفی کے کاغذات داخل نہیں کیے تھے۔ اب سماعت 7 دسمبر کو ہوگی۔ ویسے بھی حکومت کو میری برطرفی کا کوئی حق نہیں ہے، اس کے لیے اتر پردیش پبلک سروس کمیشن سے اجازت لینی چاہیے تھی۔‘‘

علماء کونسل کے ترجمان طلحہ رشیدی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کفیل ایک مسیحا کی طرح اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے لیکن ان کی تعریف اور حکومت کی خامیاں منظر عام پر آنا کسی کی آنکھوں میں کھٹک گئی۔ سب سمجھ رہے ہیں کہ انہیں یہ سزا کیوں مل رہی ہے! اتر پردیش میں ایک طبقہ کو ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اکثریتی آبادی کے ذہنوں میں ان کے لیے نفرت پیدا کی جا رہی ہے۔

اتر پردیش کے غازی آباد ضلع کے لونی علاقے میں 11 نومبر کو پیش آئے ایک انکاؤنٹر کے حیران کن واقعے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہاں پولیس کے ساتھ تصادم میں 7 نوجوانوں کی ٹانگوں میں ایک ہی جگہ گولی لگی ہے۔ جن لڑکوں کے گولی لگی ہے ان کے نام مستقیم، سلمان، مونو، آصف، انتظار اور ناظم ہیں۔ پولیس کے مطابق انہیں بہٹا حاجی پور علاقہ میں ایک گودام میں مویشیوں کو غیر قانونی طور پر ذبح کرنے کی اطلاع موصول ہوئی تھی اور جب پولیس وہاں پہنچی تو ’بدمعاشوں‘ نے ان پر گولی چلا دی۔ اس دوران پولیس کو جوابی کارروائی کرنی پڑی جس میں 7 نوجوانوں کی ٹانگ میں گولیاں لگیں۔ غازی آباد کے سابق ایم ایل سی آشو ملک نے اس انکاؤنٹر پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام نشانے پیر میں ایک ہی جگہ پر لگیں! مقامی لوگ بھی گودام میں غیر قانونی ذبح کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ پیر میں گولی لگنے کی ایک جیسی کہانی سوال کھڑے کرتی ہے!

اتر پردیش کے رہائشی اور کانگریس اقلیتی شعبہ کے سربراہ عمران پرتاپ گڑھی ان واقعات کو محض اتفاق نہیں سمجھتے اور انہیں ایجنڈا قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یوپی کی بی جے پی حکومت کے دور میں ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں جن پر غور کیا جائے تو دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف ایسے واقعات جابرانہ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ یہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ’ٹھوک دو‘ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر مسلسل نفرت پھیلا رہے ہیں۔

لوگ اس حکومت کو بدلنے کے لیے بے چین ہیں اور وہ اب زمین پر پریشان عوام کے ایک بڑے حصے کو پولرائز کرنے اور تقسیم کی سیاست کے ذریعے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ سماج کو ایک ولن کے طور پر پیش کر کے باہمی بھائی چارے کی خلیج کھود رہے ہیں۔ ان کی حالیہ انتخابی مہم یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کے پاس شمار کرنے کے لئے کوئی کام نہیں ہے لیکن ان کی دو پالیسیاں ہیں ’ٹھوک دو‘ اور ’نام بدلو‘۔ آنے والے دنوں میں اتر پردیش کے لوگوں کو بہت ہوشیار رہنا ہوگا۔ بھائی چارے کو بچانے کے لیے انہیں اضافی کوششیں کرنی ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!