مذہبیمضامین

طلبۂ علمِ دین کیلئے چند رہنمایانہ خطوط ۔۔۔

از:مفتی محمد عبد الحمید قاسمی کریم نگر

قرآن و حدیث میں علم دین کی اہمیت اور فضائل بے شمار موجود ہیں, جو چیز جتنی اہم ہوتی ہے، اس کا حصول اور تقاضے بھی بڑے اہم ہوتے ہیں اسی کے پیش نظر طالبان علوم نبوت کے لئے بنیادی طور چند باتیں ہیں جن کا جاننا نہایت ضروری ہے, تاکہ امت کو خاطرخواہ فائدہ پہنچے- بغرض اصلاح و افادہ چند سطور سپرد قرطاس ہے –
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

(1) اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں-

انسان ایک کمزور مخلوق ہے جو اللہ کی مدد کے بغیر گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، “لاَحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللَّهِ “اس لئے جب وہ اپنا معاملہ اپنے نفس کے سپرد کردیتا ہے تو ہلاک وبرباد ہوجاتا ہے اور جب اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہے اور علم کی طلب میں اسی ذات سے مدد کا خوگر ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ اس کی مدد فرماتے ہیں- قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات پر لوگوں کو ابھارا ہے. فرمایا إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين (سورۃ الفاتحة :٥)
“ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں”.
اور فرمایا : وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ
“اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا
اور فرمایا:وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡن(سورة المائدة :٢٣)
” اور تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالٰی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے مزید یہ کہ طلبِ مددِ خدا وندی کے ساتھ اس عظیم انتخاب اور نعمت پر اللہ تعالیٰ کا دل سے شکر بجا لائیں

(2) نیت درست کریں-

سارے اعمال کا دار ومدارس نیتوں پر ہے اس لئے علم کی طلب میں اپنی نیت خالص رکھیں، دکھاوا اور شہرت کا ارادہ نہ ہو، اور جو شخص اللہ کے لئے اپنی نیت خالص رکھے گا اللہ تعالی اس کو نیک توفیق اور ھدایت سے نوازے گا اور اس پر اسے ثواب بھی ملے گا، نیت درست ہونے کی برکت سے اس کا ایک ایک لمحہ عبادت بنے گا-

(3) اللہ سے علم نافع کے لئے دعا مانگیں-

اللہ رب العزت سے دعا کرنا علم میں اضافے کا سبب ہے کیونکہ بندہ فقیر ہے اور اپنے رب کا سخت محتاج ہے اللہ جل شانہ نے اپنے بندے کو سوال کرنے اور روروکر ،گڑگڑاکر، آہ وزاری کرنے اور دعائیں کرنے پر ابھارا ہے فرمایا :وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ(سورة الغافر :٦٠) “اور تمہارے رب کا فرمان(سرزد ہو چکا )ہےکہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے”.
اور اللہ نے اپنے نبی کو علم میں زیادتی کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا :۫ وَ قُلۡ رَّبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا. (سورة طه :١١٤) اور یہ دعا کرتے رہا کرو کہ : میرے پروردگار ! مجھے علم میں اور ترقی عطا فرما۔
ہمیشہ علم نافع کی دعا مانگنی چاہئے-اس لئے کہ علم نافع وہ علم ہے جو انسان کو عمل کرائے بغیر چھوڑچھوڑتا نہیں-

(4) اصلاحِ باطن کی فکر کریں-

دل علم کا برتن ہے اگر برتن درست ہے تو جو چیزیں اس میں رکہی جائیں گی محفوظ ہوں گی اور اگر برتن درست نہیں ہے تو جو اس میں رکھی جائیں گی ضائع وبرباد ہوجائیں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کو ہر چیز کی بنیاد اور اساس قرار دیا ہے فرمایا:أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ، (صحيح البخاري :52).
“سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے”.

اور دل کی درستی اور باطن کی اصلاح ، اللہ تعالی کی ذات و صفات کی معرفت، مخلوقات اور نشانیوں میں غور وفکر، قرآن کریم میں تدبر، فرض نماز اور تہجد کا اہتمام اور اعمال صالحہ کی کثرت سے ہوتی ہے نیز شہوات ؛جیسے دنیا اور اس کی خواہشات سے محبت کرنا، اس میں مشغول رہنا، حرام صورتوں سے محبت کرنا، گانے سننا اسی طرح غیر محرم کو دیکھنا ،حسد کرنا،دھوکا دینا،،تکبر کرنا،زیادہ کھانا،زیادہ سونا،فضول کلام کرنا،موبائل کا غلط استعمال کرنا،فحش اور بے حیائی کی چیزوں کو دیکھنا وغیرہ تمام باطنی گناہوں سے بچتے ہوئے ظاہری وضع قطع کوبھی درست رکھیں، خصوصاً لباس اور سر کے بال شرعی ہوں کیوں کہ ظاہر کا اثر باطن پر ضرور پڑتا ہے صحیح صحبت اختیار کریں، برے ماحول سے دور رہیں، کیوں کہ صحبت اور ماحول یہ دونوں چیزیں دل پر فوراً اثر انداز ہوتے ہیں-

(5) علم کی حرص اور عظمت اپنے اندر پیدا کریں-

انسان جب کسی شیئ کی اہمیت کا اندازہ کرلیتا ہے تو اس کے دل میں اس شیئ کو حاصل کرنے کی تڑپ اور حرص پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جن اشیاء کو حاصل کرنے کی تڑپ شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور اسے حاصل کرنے میں سخت محنت اور جد وجہد کرتا ہے، ان میں سب سے عظیم شیئ علم ہے اس لئے انسان پر واجب ہے کہ علم کا حریص ہو، اور حریص ہونے کے لئے پہلے علم دین کی عظمت دل میں بٹھانا ضروری ہے، اور علم دین کی عظمت دل میں بٹھانے کے لئے قران و حدیث میں جو علم دین کے فضائل وارد ہیں اس کو انفرادا پڑھنے اور سننے کے علاوہ وقتاً فوقتاً اس کا مذاکرہ بھی ہونا چاہئے, کیوں کہ جس دل میں علم دین کی عظمت ہوگی وہی علم دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم مصمم اور ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی کو اپنے اوپر لازم اور ضروری سمجھتا ہے-

(6) سخت محنت کے ساتھ اسلاف امت کے واقعات کا مطالعہ کریں-

سستی و کاہلی اور حصول علم کے تمام موانع اور رکاوٹ پیدا کرنے والےاسباب مثلاً نفس اور شیطان کی پیروی ، بیجا اور غیر ضروری موبائل کا استعمال سے بچنے کے لئے پوری طاقت صرف کردیں، بے توجہی، بے التفاتی، بے رغبتی کئے بغیر دل و دماغ لگا کر یکسوئی اور انہماک کے ساتھ تعلیم حاصل کریں، نیز حصول علم کے لئےاسلاف اور علماء کی سوانح عمری اور ان کے علمی اسفار اور ان کے علمی اسفار میں پیش آنے والے مصائب ومشکلات کے دوران ان کے صبروتحمل اور قوت برداشت وغیرہ کے واقعات خصوصاً کتاب آداب المتعلمین (تالیف حضرت قاری سید صدیق احمد صاحب باندویؒ) کا مطالعہ کریں ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا-

(7) نظام الاوقات ترتیب دیں-

نظام الاوقات انسان کی دنیوی اور اخروی کامیابی کے لئے ضامن یے، طلبہ علم دین سے پرخلوص گزارش ہے کہ اس نعمت عظمیٰ کے حصول کے لئے اپنے اندر صدق طلب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نظام الاوقات ترتیب دیں، جس سے وقت کی پابندی، وقت کی حفاظت جیسے صفات پیدا ہوں گے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے عربی، اردو، فارسی زبانوں کے علاوہ بالخصوص انگریزی تلگو یا اپنے اپنے مقامی زبانوں میں بھی مہارت اور قابلیت پیدا کرکے غیروں کے سامنے اسلام کی سچی اور صحیح تعلیمات ان تک پہنچائی جاسکتی ہے، جو اس دَور کا سب سے بڑا اور اہم تقاضہ بھی ہے, نیز نظام الاوقات کے تحت یہ بات عرض کرنا ہے کہ خاص طور پر شعبہ حفظ و ناظرہ کے طلبہ مغرب کی تعلیم پر زیادہ زور دیں، مغرب کے اوقات میں ہی سبق اچھی طرح یاد کرلیں، تاکہ پارہ سبق اور آموختہ پکا رہ سکے، شعبہء عالمیت کے طلبہ تین کام درسگاہ کی پابندی، آنے والے سبق کا پہلے سے مطالعہ اور تکرار کا خاص اہتمام کریں-

(8)استاد یا کسی اہل دل کی صحبت اختیار کریں-

کسی نے کیا خوب کہا ہے: نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا،علم ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا، استاد یا بزرگان دین سے ادب و اخلاق اور تقوی حاصل کریں،اساتذہ کا خوب ادب و احترام ملحوظ رکھیں ،ان کو اپنے سے کمتر نہ سمجھیں،استاد کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں،اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنا شیخ کتاب کو نہ بنائے کیونکہ جب کتابوں کو اپنا شیخ بنائیں گے تو صحیح چیزیں کم اور غلطیوں کا صدور زیادہ ہوگا، امت میں جو بھی شخص علم سے متصف ہوا وہ کسی عالم یا اہل دل کے ذریعہ سے ہی تربیت پانے والا اور علم حاصل کرنے والا رہا ہے یہی سلسلہ ہمارے اس دور تک جاری ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ ظاہر کے ساتھ باطن بھی پاک رہے گا –

(9) سب سے پہلے اپنی منزل طئے کریں-

دنیوی اور عصری علوم کے پڑھنے والے کو ابتدائی جماعت سے ہی سرپرست، اساتذہ، والدین ذھن سازی کرتے ہوئے اس کے ذہن و دماغ میں یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ بڑے ہونے کے بعد ڈاکٹر،انجینئر، پولس یا دیگر عہد دار بننا ہے، اور وہ اسی کو اپنی منزل بنا کر جد وجہد شروع کردیتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک دینی طالب علم جس کو نہ خود اپنے مقام کا پتا ہوتا ہے نہ علم دین کی عظمت اس کے دل میں ہوتی ہے بالفاظ دیگر نہ شوق ہوتا ہے نہ خوف ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ سالہا سال مدارس میں پڑھنے کے بعد بعض طلبہ مدرسہ میں گزارے ہوئے لمحات کو تضییعِ اوقات سے تعبیر کردیتے ہیں- الامان و الحفیظ-
ہونا تو یہ چاہئے کہ دینی تعلیم کی تمام رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے علم دین کی اہمیت،عظمت شان،مقام کو دل میں بٹھا کر اس کے حصول کو سعادت اور اس کی خدمت کو فریضہ اور ذمہ داری سمجھتے ہوئے تمام فنون میں مہارت تامہ یا جس فن سے زیادہ لگاؤ ہو اس میں تخصص پیدا کریں، ایسے ہی دین کے بہت سے شعبے ہیں جس شعبہ سے قلبی تعلق اور انسیت ہو اس میں لگ کر دین کی خدمت کریں، اور دین کی خدمت کو اللہ کا احسان سمجھیں کہ اس نے اپنے دین کی اشاعت کے لئے ہمیں منتخب کیا ہے، سب سے بڑا فضل اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ہے کہ دینی خدمت کو معیشت کا ذریعہ بھی بنادیا کہ الحمد للہ دینی خدمت کے ساتھ ساتھ معیشت اور کھانے پینے اور دنیوی ضرورتوں کا مسئلہ بھی حل ہوگیا – دینی خدمت کے علاوہ دنیوی ڈگریاں حاصل کرکے ملازمت کرنا یا کاروبار کرنا برا نہیں ہے بلکہ برا اور ممنوع اس وقت ہے جبکہ دنیوی لائن میں اس طرح کھوجانا اور محو ہوجانا کہ اسلامی اور دینی کوئی شناخت اور پہچان باقی نہ رہے، ہاں نیت خالص ہو تو اسلامی طرز پر ملازمت اور کاروبار کرکے اسلامی تعلیمات کو اجاگر اور روشن کرکے ،اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اسلام کے تعارف کو غیروں کے سامنے بھی پیش کیا جاسکتا ہے، نیز یہ بات اچھی طرح ذھن نشین فرمالیں کہ دنیوی اعتبار سے چاہے کچھ بھی مصروفیت ہو، علم کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ اس لائن سے ہٹے نہیں،ظاہری وضع کا لحاظ اور رعایت کرتے ہوئے شریعت کے پابند بن کے رہیں،آخری درجہ میں چھوٹے سے مکتب میں “نورانی قاعدہ” کی تعلیم کے ذریعہ سے ہی سہی خدمت انجام دیں–

(10) اپنے آپ کو تاحیات حصول علم و اشاعت دین کے لئے وقف کردیں-

ہر جاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا موجود ہے اس لئے طالب علم کبھی اپنے آپ کو فاضل اور فارغ التحصیل نہ سمجھیں اور نہ ایسے خیالات اپنے اندر پیدا ہونے دیں، اورنہ ہی عدم قابلیت یا کسی اور وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوکر نصاب تعلیم مکمل ہونے کے بعد علم دین کا راستہ چھوڑ کر دوسری لائن اختیار کرنے کی فکر کرے، ، بلکہ مستقل ، کثرتِ مطالعہ کے ذریعہ تحقیقی مزاج بناتے ہوئے علم سے اپنے رشتہ کو مضبوط اور استوار بنائیں،دنیا کی تمام دولتوں میں علم کی دولت سب سے زیادہ بے نیاز دولت ہے، کیوں کہ جب تک علم دین کا طالب اپنی تمام تر فکر، طلب،محنت جستجو ، تعلق اور لگاؤ کا اظہار نہیں کرتا اور اس کے حصول کےلئے اساتذہ اور آلات علم کا ادب و احترام، مدرسہ سے محبت اور ایثار و قربانی کا جذبہ دل میں نہیں رکھتا تو تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ علم ملنا تو دور کی بات ہے علم کی بو بھی اسے حاصل نہیں ہوتی، یعنی خاطرخواہ فائدہ اسے حاصل نہیں ہوگا-

خلاصۂ کلام:- اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اور علم دین کی قدر کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ تاحیات اپنی قابلیت ،صلاحیت اور صالحیت کے ذریعہ سے تحریری، تقریری ہر اعتبار سے امت محمدیہ کو فائدہ پہنچائیں-
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!