اترپردیشریاستوں سے

جلانے کے بجائے دفنائی جارہی ہیں لاشیں! اناؤ میں ریت سے لاشیں ملنے سے دہشت

اناؤ کے ضلع مجسٹریٹ رویندر کمار نے کہا، ’’کچھ لوگ لاشوں کو جلانے کی بجائے ندی کے کنارے ریت میں دفن کر دیتے ہیں۔ اطلاع موصول ہونے کے بعد میں نے افسران کو جائے وقوعہ پر بھیج دیا ہے

اناؤ: مشرقی یوپی اور بہار میں گنگا ندی سے مشتبہ کووڈ کے مریضوں کی لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھے جانے کے چار دن بعد ایک رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اناؤ ضلع میں گنگا ندی کے کنارے دو مقامات پر کئی لاشین ریت میں دفن کی گئی ہیں۔ دو مقامات پر مقامی لوگوں نے دفن لاشوں کو دیکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر لاشیں زعفرانی رنگ کے کپڑے میں لپٹی ہوئی ہیں۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا یہ لاشیں کووڈ مریضوں کی ہی ہیں!

اناؤ کے ضلع مجسٹریٹ رویندر کمار نے کہا، ’’کچھ لوگ لاشوں کو جلانے کی بجائے ندی کے کنارے ریت میں دفن کر دیتے ہیں۔ اطلاع موصول ہونے کے بعد میں نے افسران کو جائے وقوعہ پر بھیج دیا ہے۔ میں نے جانچ کے بعد کارروائی کرنے کو کہا ہے۔‘‘ لاشوں کو حاجی پور علاقہ کے ریتا پور گنگا گھاٹ کے پاس دفن کیا گیا تھا۔

مقامی کاروباری شریش گپتا نے کہا، ’’مانسون مشکل سے ایک مہینہ دور ہے، گنگا ندی پانی سے بھر جانے کے بعد لاشیں ساحل پر آ جائیں گی۔ ضلع انتظامیہ کو لاشوں کو ہٹانا چاہیے اور ان کی آخری رسومات صحیح طریقہ سے ادا کرنی چاہئیں۔‘‘ضلع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ اگر ہم لاشوں کو نکالتے ہیں تو یہ نظم و نسق کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ اس معاملہ میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے وبا چلی ہے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے اور آخری رسومات ادا کرنے کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔

گپتا نے کہا، ’’ہندو روایات کے مطابق لاشوں کو نذر آتش کرنے کا پیکج اب 15000 سے 20000 روپے کے درمیان ہے۔ ظاہر ہے کہ غریب لوگ یہ رقم ادا نہیں کر سکتے اور وہ لاشوں کو ندی کے کنارے ریت میں دفن کر رہے ہیں۔‘‘ اس سے قبل پیر کے روز غازی پور اور بلیا میں بھی گنگا کے ساحل پر مہلوکین کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں، وہیں بہار کے بکسر مییں بھی تیری ہوئی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!