حالاتِ حاضرہمضامین

فرانس میں اسلام مخالف نئے قانون کی منظوری، مسلمان پھرنشانے پر!

️سرفراز احمدقاسمی، حیدرآباد

پوری دنیا میں اس وقت اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے،فرانس سمیت یورپی ممالک میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام کے دامن میں پناہ لے رہےہیں،جس سے اسلام دشمن طاقتیں خوفزدہ ہیں اوراسی کا نتیجہ ہے کہ آئے دن اسلام اور مسلمانوں کی دل آزاری کی کوششیں کی جاتی ہیں،کبھی پیغمبر اسلام ﷺ کی شان مبارک میں کارٹون بناکر گستاخی کی جاتی ہے،کبھی صحابہ کی مقدس جماعت کونشانہ بنایا جاتاہے تو کبھی قرآنی کے ساتھ بے حرمتی کی جاتی ہے اسکو جلایا جاتاہے،اس طرح مختلف طرح کے حربے اپنائے جاتے ہیں،فرانس کی قومی پارلیمنٹ نے گذشتہ ہفتہ ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے،یہ قانون کیا ہے؟ اسکے ذریعے کیا اسلام کی مقبولیت کو روکا جاسکتا ہے؟ آئیے پہلے یہ جانتے ہیں کہ فرانس کی تاریخ اوراسکی حقیقت کیا ہے؟عالمی سطح پراسکا کیا مقام ہے؟ اسکے جغرافیائی حالات کیا ہیں؟اسکی آبادی کتنی ہے؟ وہاں مسلمانوں کی تعداد کیاہے؟وغیرہ وغیرہ        

فرانس مغربی یورپ کا ایک خود مختار ملک ہے،جسکی عمل داری میں مغربی یورپ میٹروپولیٹن فرانس اور سمندر پار واقع متعدد علاقے اورعمل داریاں شامل ہیں،فرانس کا میٹروپولیٹن خطہ بحیرۂ روم سے رودبار انگلستان اور بحیرۂ شمال تک نیز دریائے رائن سے بحراوقیانوس تک پھیلاہواہے،جبکہ سمندر پار علاقوں میں جنوبی امریکہ کا فرانسیسی گیانا اور بحرالکاہل و بحرہند میں واقع متعدد جزیرے شامل ہیں،ملک کے 18 خطوں کا مکمل رقبہ(جن میں سے پانچ سمندر پار واقع ہیں)643,801 مربع کیلو میٹر (248,573 میل) ہے، جون 2018 کے سروے کے مطابق فرانس کی مجموعی آبادی 6کروڑ 71لاکھ  86ہزار 6سو اڑتیس لوگوں پر مشتمل ہے،فرانس ایک نیم وحدانی جمہوریہ ہے،جسکا دارالحکومت پیرس ہے،یہ فرانس کا سب سے بڑا شہر اور ملک کا اہم ترین ثقافتی واقتصادی مرکز ہے،وہ خطہ جو اس وقت میٹروپولیٹن فرانس کہلاتا ہے،آہنی دور میں اس جگہ سیلٹک قوم سے تعلق رکھنے والے گال آباد تھے،روم نے 51 قبل مسیح اس خطے پر قبضہ کیا جو 476ء تک برقرار رہا،بعد ازاں جرمنی فرانک یہاں آئے اور انھوں نے مملکتِ فرانس کی بنیاد رکھی،عہدوسطی کے اواخر میں فرانس نے جنگ صدسالہ 1337ء تا 1453 میں فتح حاصل کی،جسکے بعد فرانس ایک بڑی یورپی طاقت بن کر ابھرا،نشاة ثانیہ کے وقت فرانسیسی ثقافت پروان چڑھی اور ایک عالمی استعماری سلطنت کی ابتداء ہوئی،چوبیسویں صدی عیسوی تک دنیا کی دوسری عظیم ترین سلطنت سمجھی جاتی تھی،سولہویں صدی عیسوی میں کاتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان میں مذہبی جنگیں عروج پر تھیں اور یہ پوری صدی انہی جنگوں کے نام رہی،تاہم لوئی چودہواں کے زیر اقتدار فرانس یورپ کی غالب تمدنی ،سیاسی اورفوجی طاقت بن گیا.

اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر میں عظیم الشان”انقلاب فرانس”رونما ہوا،جس نے مطلق العنان شہنشاہی کا خاتمہ کرکے عہد جدید کے اولین جمہوریہ کی بنیاد رکھی اور حقوقِ انسانی کے اعلامیہ کا مسودہ پیش کیا،جوبعد میں اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے منشور کا محرک بنا،      انیسویں صدی عیسوی میں نپولین نے  مسندِ اقتدار سنبھالنے کے بعد فرانسیسی سلطنتِ اول قائم کی،نپولین کے عہد میں لڑی جانے والی جنگوں نے پورے براعظم یورپ کو خاصا متاثر کیا،اس سلطنت کے زوال کے بعد فرانس سخت بدنظمی اور انتشار کا شکار رہا،بالآخر 1870 میں فرانسیسی جمہوریہ سوم کی بنیاد پڑی،فرانس پہلی جنگ عظیم میں شامل تھا،جس میں اسے معاہدہ کی شکل میں فتح نصیب ہوئی،نیز وہ دوسری جنگ عظیم میں بھی متحدہ طاقتوں کے ساتھ تھا،لیکن 1940 میں محوری طاقتوں نے اس پر قبضہ کرلیا،1944 میں فرانس کو اس سے آزادی ملی اور فرانسیسی جمہوریہ چہارم کا قیام عمل میں آیا،لیکن یہ پھر الجزائر کے جنگ کے وقت تحلیل ہوگیا،1958 میں چارلس ڈیگال نے فرانسیسی جمہوریہ پنجم کی بنیاد رکھی،جو اب تک موجود ہے.

1960ء کی دہائی میں الجزائر اور تقریباً تمام نو آبادیاں فرانسیسی استعمار سے آزاد ہوئیں لیکن فرانس سے انکے اقتصادی اورفوجی روابط اب بھی خاصے مستحکم ہیں،فرانس سیکڑوں برس سے فلسفہ،طبیعی علوم اور فنونِ لطیفہ کا عالمی مرکز رہاہے،وہاں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں کے مقامات بکثرت موجود ہیں،جنھیں دیکھنے کےلئے ہرسال تقریباً 83ملین غیرملکی سیاح آتےہیں،فرانس ایک ترقی یافتہ ملک ہے،جوخام ملکی پیدوار کے لحاظ سے دنیا کی ساتویں اورمساوی قوت خرید کے لحاظ سے نویں بڑی معیشت سمجھا جاتاہے،مجموعی خانگی دولت کے حساب سے فرانس دنیا کا چوتھا مالدار ترین ملک ہے،نیز تعلیم، نگہداشت صحت،متوقع زندگی اورانسانی ترقی کے میدانوں میں بھی فرانس کو نمایاں مقام حاصل ہے،اقوامِ متحدہ کی سیکوریٹی کونسل میں حق استرداد حاصل ہونے کی بنا پر اسے دنیا کی عظیم طاقت اور باضابطہ جوہری قوت کا حامل ملک سمجھا جاتاہے،ساتھ ہی یورو زون اور یورپی اتحاد کے سربر آوردہ ممالک میں اسکا شمار ہے،اسکے علاوہ وہ ناٹو فوج،انجمن اقتصادی تعاون وترقی،عالمی تجارتی ادارہ اور فرانسیسی بین الاقوامی تنظیم کا بھی رکن رکین ہے”(وکی پیڈیا)         

اب آئیے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟فرانس ایک جمہوری ملک ہے وہاں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 60لاکھ ہے جن میں سے اکثر  شمالی افریقی مسلم ممالک اور مشرقِ وسطی کے مہاجرین ہین ہیں،جنوبی ایشیائی ممالک ہندوستان پاکستان،اور بنگلہ دیش وغیرہ کے مسلمان کم ہیں،مقامی آبادی سے حلقہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے،انیسویں اور بیسویں صدی میں فرانس برطانیہ کے بعد دوسری بڑی عالمی طاقت کے طورپر جانا جاتاتھا،شمالی افریقہ ممالک مراکش،تیونس،الجزائر،سینی گال اور مشرق وسطی میں لبنان اسکے مفتوحہ ممالک تھے،کم وبیش تین سال اس نے مصر کو بھی غلام بنائے رکھا،پہلی جنگ عظیم سے قبل ہی فرانس کے زیرقبضہ ممالک سے مسلمان،فرانس منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے،لیکن خاص طور پر 1950 کے بعد بڑی تعداد میں مسلمانوں نے فرانس کی طرف ہجرت کی.

1962 میں الجزائر کو آزادی ملی،وہاں کے جن باشندوں نے مجاہدین آزادی کے خلاف فرانسیسی فوج کاساتھ دیاتھا،آزادی کے بعد انھیں فرانس میں پناہ دی گئی،جنکی تعداد تقریباً 90ہزار تھی،فرانس کی معاشی وصنعتی ترقی بھی بعد کے سالوں میں ہنرمند مسلمانوں کی ہجرت کا سبب بنی اورجنگ زدہ مسلم ممالک کے باشندے امن اور پناہ کی تلاش میں وہاں منتقل ہوتے رہے،جسکا سلسلہ تاحال جاری ہے،ساٹھ لاکھ مسلمانوں میں کم وبیش 35لاکھ عرب افریقی مسلم مہاجر اورانکی اولاد ہیں،ڈھائی ہزار سے زائد وہاں مساجد ہیں،جن میں سے دوسو کے قریب راجدھانی پیرس میں ہیں،فرانسیسی مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم”مسلم کونسل آف فرانس”ہے جو 2003 میں قائم کی گئی،یورپی ممالک میں فرانس مسلم آبادی کے لحاظ سے سرفہرست ہے،فرانس کی قومی اسمبلی نے گذشتہ ہفتہ ایک نئے قانون کو متعارف کرایاہے اور اسے منظوری دی ہے،آئیے دیکھتےہیں اس قانون میں کیا ہے؟

اخباری رپورٹ کے مطابق فرانس کی نیشنل اسمبلی نے ایک قانون سازی کو منظوری دی ہے جسکا بنیادی مقصد،ملک کے ٹاؤنس اور شہروں میں اسلام کے فروغ کو روکناہے،فرانسیسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ فروغ اسلام سے فرانسیسی قومی یکجہتی کو خطرہ لاحق ہے،اس قانون سازی میں کسی مخصوص مذہب کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے لیکن اسکے ذریعے جبری شادی اور باکرہ یا غیر شادی شدہ ہونے کے ٹسٹ جیسے طریقوں کے خلاف گنجائش رکھی گئی ہے،اس قانون میں تشدد پر مبنی حرکتوں کے خلاف سخت اقدامات شامل ہیں،مذہبی تنظیموں کی سخت نگرانی اور مرکزی دھارے میں شامل اسکول کے بچوں کو اسکولوں سے باہر تعلیم دلانے پر پابندی شامل ہے،غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق فرانس میں انتہاء پسندی کی روک تھام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سخت  پابندیوں اور کڑی نگرانی کےلئے قانون منظور کرلیاگیاہے،اس خبررساں ادارے کا مزید کہنا ہے کہ فرانس کے قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اس بل کا مقصد بظاہر یہ بتایاگیاہے کہ اسکے ذریعے مذہبی تنظیموں کی کڑی نگرانی،تشدد کے واقعات کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی،عام اسکولوں سے ہٹ کر دوسرے اداروں میں بچوں کی تعلیم اور جبری شادی وغیرہ کی روک تھام کرنے میں مدد لی جائےگی،تاہم قانون سازی میں ان اقدامات کو”اسلام ازم یا “اسلامی علیحدگی پسندی” کے تدارک سے منسلک کیاگیاہے.

اس قانون سازی کے بعد خصوصاً فرانس میں مساجد،انکے انتظامات کرنے والی تنظیموں اور بچوں کی گھر میں تعلیم سمیت مسلمانوں کی کڑی نگرانی کےلئے ریاستی ادروں کو کئی اختیارات حاصل ہوجائیں گے،فرانسیسی صدر میکرون کی پارٹی نے اس قانون سازی کےلئے پورے ملک میں زور وشور سے مہم چلائی،جسکے نتیجے میں فرانسیسی قومی اسمبلی کے 347 ارکان نے اس قانون کے حق میں اور 151 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا،جبکہ 65اراکین ایوان سے غیر حاضر رہے،فرانسیسی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے ایسے مجوزہ قوانین کی مخالفت کی گئی تھی، اور اب بھی کی جارہی ہے،جبکہ دوسری جانب دنیا بھرکے 13 ممالک سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی 36 غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد نے اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق میں اس قانون سازی اور فرانس میں مسلم مخالف اقدامات کے خلاف اپیل دائر کررکھی ہے،دنیا بھرکی نمایاں حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے اقوامِ متحدہ سے اپیل کی ہے کہ فرانس میں مسلمانوں کے خلاف دودہائیوں سے جاری ریاستی اقدامات روکنے کےلئے اقدامات کئے جائیں.

ان 36 تنظیموں کے اتحاد کا کہناہے کہ اس قانون سازی سے متعدد بنیادی حقوق سلب کرلئے گئے ہیں اور یہ قانون مسلمانوں کو ایک مذہبی اور سماجی برادری کے طورپر بالکل الگ تھلگ کردیتاہے،اس قانون کی 70 سے زائد مختلف شقیں ہیں،ان شقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ریاست کے اختیارات میں اتنا زیادہ اضافہ کردیاجائے گاکہ ملکی عہدے دار نہ صرف مسلم مذہبی اسکولوں اورعبادت گاہوں کو بند بھی کرسکیں گے،بلکہ انتہاء پسندانہ نظریات کی تبلیغ کرنے والے مبلغین پر پابندی بھی لگائی جاسکے گی اورمسلم مذہبی گروپوں کےلئے یہ لازمی ہوگا کہ وہ خود کو بیرون ملک سے ملنے والی بڑی رقومات سے عہدے داروں کو آگاہ کریں اور ساتھ ہی اپنے رجسٹرڈ بینک اکاؤنٹ کی توثیق بھی کروائیں،اس قانون میں یہ شق خاص طور پر اسلئے رکھی گئی ہے کہ پیرس حکومت اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش کا سدباب کرسکے کہ ملک میں مسلمانوں کی مساجد کو ترکی،قطر اورسعودی عرب جیسے دیگر ممالک کی جانب سے رقوم مہیا کی جاتی ہیں، اس بل کو بائیں بازو والوں نے اسلام پر حملہ قرار دیاہے”         

یہ ہے اخباری رپورٹ،اب اس قانون پر غور کیا جائے تو یہ بالکل واضح ہے اس بل کے ذریعہ ایک بار پھر فرانس کے مسلمان نشانے پر ہیں،اور اسلام کی مقبولیت سے فرانس کی موجودہ حکومت خوفزدہ ہے،سوال یہ ہے کہ جس آزادی کےلئے فرانس میں انقلاب آیا،جس حقوق انسانی کاتحفظ جمہوری فرانس کا منشور ہے آخروہاں اسطرح کی قانون سازی کا کیامطلب ہے؟ کیا فرانس پھر کسی نئے انقلاب کی راہ تک رہاہے؟ فرانس دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہاہے ،کیا اسطرح کا قانون بناکر اسلام کی مقبولیت کو یہ حکمراں روک پائیں گے؟جس اسلام کے غلبے کی پیشن گوئی پیغمبر اسلام ﷺ نے چودہ سوسال پہلے ہی فرمادی تھی کہ “اسلام غالب آکر رہےگا” اور یہ کہ”اگرجنگل میں کوئی گھر ہوگا تو اسلام وہاں تک بھی پہونچ کر رہےگا”یہ پیشن صاحب اسلام،صادق وامین ﷺ نے واضح طور پر فرمادی ہے،اسکے برخلاف فرانس وہی ملک ہے جہاں وقفے وقفے سے اسلام  اور پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی اور توہین کی جاتی ہے،فرانس کی حکومت کو تو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہئے تھی، لیکن کیا کہاجائے اس موجودہ جمہوریت کے بارے میں،جہاں آزادیِ اظہار رائے کی آڑ میں مسلمانوں کومشتعل کیاجاتاہے،انکی مقدس کتاب کی بے حرمتی کی جاتی ہے،لیکن جمہوریت کے ٹھیکیدار ان پرلگام لگانے سے قاصر ہیں،کیا یہ دوغلا پن نہیں ہے؟         

بی بی سی کے مطابق 2015 سے اب تک شدت پسندوں کے حملوں میں  ڈھائی سو سے زیادہ مسلمان شہید کردئیے گئے ہیں،تاہم گذشتہ برس توہین آمیز خاکوں کو اسکول میں دکھانے والے استاذ کے قتل کے بعد سے فرانس میں مسلمانوں کے خلاف غصہ کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی ہے،تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ قانون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،فرانس میں رہنے والے بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس نئے قانون میں بظاہر تو کئی اچھے نکات ہیں،لیکن خدشہ یہ ہے کہ اس قانون کی آڑمیں مسلمانوں کو مزید دیوار سے لگادیاجائےگا،مسلمان فرانسیسی معاشرے میں گھلنے ملنے کے بجائے مزید دور ہوجائیں گے اور معاشرتی بیگانگی کا شکار ہوں گے،بی بی سی سے وابستہ ایک پاکستانی خاتون صحافی حفصہ علامی کہتی ہیں کہ یہ قانون مسلمانوں کو نشانہ بنائے گا،جو ریپبلکن اصولوں اوراقدار کے دشمن نہیں ہیں،وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں،یہ قانون مسلمانوں کو ایک عام شہری کے بجائے اجنبی اور درانداز کے طور پردیکھے گا،اور یہ شہری آزادیوں کو بھی سلب کرلے گا اورسیکولزم کو تنگ نظری سے نافذ کرے گا،حفصہ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اس قانون کی وجہ سے نسل پرستانہ قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اورمسلمان ہونا ایک احساس جرم بن جائے گا جسکے نتیجے میں مسلمان اپنی عبادت گاہوں میں جانے سے بھی گریز کریں گے،مسجدوں میں جاکر عبادت کرنا اتنا سادہ عمل نہیں رہےگا،وہ مسلمان جو نوکریوں یاتعلیم کےلئے فرانس آنا چاہتے ہیں انکی حوصلہ شکنی ہوگی،کیونکہ فرانس میں مسلمانوں کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہیں”

بی بی سی کے ایک دوسرے نمائندے ڈاکٹر افتخار ملک کا کہنا ہے کہ فرانس میں اسلام اور سیکولرازم کی ایک تاریخی کشمکش ہورہی ہے جسکے نتیجےمیں بہت اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں،فرانس کی موجودہ صورتحال مستقبل میں کیارخ اختیار کرتی ہے؟یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال وہاں رہنے والے مسلمان ایک طرح کی بے یقینی کا شکارہیں،یہ نیا قانون مسلمانوں کےلئے فرانسیسی معاشرے کے دروازے کھولے گا یامزید دریچے بند ہوں گے اسکا انحصار اقتدار کے ایوانوں میں کئے جانے والے فیصلوں پر ہوگا”اتنا ضرور ہے کہ اس قانون سے وہاں کے مسلمان تحفظ کا شکار ہیں، اور یہ چیز فرانس جسے ممالک کےلئے مناسب نہیں ہے،حکومت کو اس قانون پر نظرثانی کرنی چاہئے اور ایک جمہوری ملک میں انسانی حقوق کا خیال رکھناچاہئے،اس سے جمہوریت کاقد مزید بلند ہوگا،دنیا کو آج پہلے سے زیادہ امن وامان کی ضرورت ہے،جمہوری نظام کے نظام کے علمبرداروں کےلئے یہ وقت کا ایک اہم چیلنج ہے اور انسانیت کی ضرورت بھی،ہمیں اس پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!