خبریںقومی

کسانوں کی حمایت میں سنگھو سرحد پر ایس ڈی پی آئی کا احتجاجی مارچ


نئے زرعی قوانین آزاد ہندوستان کی تاریخ کی سب سے تباہ کن اور سیاہ زرعی قوانین ہیں۔ اڈوکیٹ شرف الدین احمد

نئی دہلی: 3/دسمبر (پریس ریلیز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد کی قیادت میں ایس ڈی پی آئی کارکنان نے تینوں نئے زرعی قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہوئے کسانوں کی حمایت میں دہلی۔ ہریانہ سنگھو سرحد پر احتجاجی مارچ کیا اور 27نومبر سے جی ٹی روڈ پر کیمپ لگائے ہوئے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں سے ملاقات کرکے ان کو اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ ایس ڈی پی آئی کے سینکڑوں کارکنان نے احتجاج کررہے کسانوں کے درمیان ددد ھ، روٹی، بسکٹ اور دیگر اشیائے خوردنی بھی تقسیم کیا۔

احتجاجی مارچ میں ایس ڈی پی آئی قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی،قومی ورکنگ کمیٹی رکن ڈاکٹر نظا م الدین خان، ایس ڈی پی آئی دہلی ریاستی کوآرڈنیٹر عبدالقادر، ایس ڈی پی آئی اتر پردیش کے ریاستی خازن قمر الدین،مغربی اتر پردیش کے کوآرڈنیٹرمعید ہاشمی شریک رہے۔ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئے زرعی قوانین کے خلاف ایس ڈی پی آئی نے گزشتہ اکتوبر ماہ میں ملک بھر میں ‘جاگو کسان ‘مہم چلایا تھا۔ اس مہم کا اختتامی اجلاس دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں ہوا جس میں ملک بھر سے کسان نمائندوں نے حصہ لیاتھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ 14اور15نومبر کو بنگلور میں نیشنل ورکنگ کمیٹی اجلاس میں پارٹی نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے اور انتباہ کرتے ہوئے یہ قرار داد بھی منظور کیا کہ مرکزی بی جے پی حکومت کی نافذکردہ فاریم ایکٹ 2020کسان مخالف ہیں اور ہمارے ملک کے زرعی شعبے کی ترقی کے منافی ہیں۔حکومت کو نئے زرعی قوانین منسوخ کرنے یا ملک بھر میں زبردست مظاہروں کا سامنا کرے۔

اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے خطاب میں اس قانون کو آزاد ہندوستان کی بدترین زرعی قوانین قرارد یتے ہوئے کہا کہ کسانوں کی محنت اور پسینے سے ہر شہری کی بھوک مٹتی ہے۔ ہمارے ملک میں کسانوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے انتہائی اقدامات(خودکشی) کی رپورٹیں اکثر سنی جاسکتی ہیں، کیونکہ بڑی مشکلات کے ساتھ حاصل کی گئی کٹائی کو انہیں مناسب قیمت نہیں مل رہی ہے۔ تاہم، حیرت کی بات یہ ہے کہ کسانوں کے نام پر انتخابی مہم چلانے والی اوراقتدار حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں کسانوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے کسانوں کو انتہائی بدحالی اور محرومی کے دہانے پر دھکیل رہی ہیں۔ مرکزی بی جے پی حکومت کے ذریعہ ہندوستانی تاریخ کے تین انتہائی سخت کسان مخالف قوانین کو جلدی بازی میں منظور کیا گیاہے۔ راجیہ سبھا کے ڈپٹی اسپیکر نے پارلیمانی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے صوتی ووٹ کے بعد اس کے منظو ر ہونے کا اعلان کیا۔ ہمیشہ کے فرمانبردار صدر نے فوری طور پر بلوں پر دستخط کردیئے اور یہ قانون بن گئے۔

ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمدنے اپنے خطاب میں تینوں نئے زرعی بلوں کے بارے میں تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ

1)۔زرعی پیداواری تجارت (فروغ اور سہولت) ایکٹ 2020۔یہ اے پی ایم سی (APMC)کو کمزور کرتا ہے اور ایم ایس پی(MSP) کو بیکار بنا دیتا ہے
2)۔زرعی(بااختیاراور تحفظ)قیمت اور زرعی خدمات بل 2020میں معاہدہ کاشتکاری کو فروغ دیا گیا ہے
کسانوں کو بااختیار بنانے اور ان کے تحفظ سے متعلق (پرائس اشورنس اور فارم سروسس) بل 2020پیش کرتے وقت بی جے پی کے وزراء نے دعوی کیا کہ کل زرعی زمین کا رقبہ تیزی سکڑ رہا ہے جس کی وجہ سے کاشتکاری فائدہ مند نہیں ہے۔ کسان مارکیٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔ نیا قانون کسانوں اور کارپوریٹ کمپنیوں کو قیمت، معیاراور فصلوں سے متعلق پہلے سے معاہدہ کرنے میں مدد کرتا ہے، اس سے کسان با اختیار ہونگے اور ان کی فلاح وبہبود کا تحفظ ہوگا۔ زراعت پر نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے زرعی شعبے کی معیشت کو تقویت ملے گی۔
3۔ اشیاء ضروریہ (ترمیمی) بل 2020۔ اس سے کالا بازاری کا فروغ ہوگا
اشیاء ضروریہ (ترمیمی) ایکٹ کے تعلق سے حکومت کا موقف ہے کہ اس ترمیم سے کسانوں اور صارفین کے مابین قیمت میں استحکام آئے گا۔ اس سے کولڈ اسٹوریج میں سرمایہ کاری کے ذریعے نجی شعبوں کو سپلائی چین کو جدید بنانے میں مدد ملے گی۔

ایس ڈی پی آئی قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرکزی حکومت نے اس قانون کو صرف اپنے اصل مذموم مقاصد کوچھپانے کیلئے ایک طویل اور مثبت نام دیا ہے۔ اس قانون سے بڑے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو زرعی اراضی پر قبضہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کارپوریٹ کمپنیاں کسانوں کے ساتھ قیمت، معیاراور فصلوں سے متعلق پہلے سے معاہدہ کریں گی، اس سے کسانوں کے منظم استحصال کا ایک اور راستہ کھل جائے گا۔ حکومت ان کارپوریٹ کمپنیوں کو ‘اسپانسرز’کہتی ہے۔ جس سے مارکیٹ میں ان کی اجارہ داری قائم ہوگی۔ وہ پیداوار کا معیار طئے کریں گے اور اپنی مرضی سے پیداوار کو مسترد کریں گے۔ اس کا کاشتکاروں پر تباہ کن اثر پڑے گا۔ قانون میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی شکایات تحصیلدار یا نامزد ریونیو افسر کے سامنے درج کی جاسکتی ہیں۔ کوئی بھی ازالہ 100دن کے بعد بے کار ہوگی۔ کیونکہ کسان کو اپنے کھیت میں واپس جانا پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جب تک نئے زرعی قوانین منسوخ نہیں کئے جاتے اور واپس نہیں لئے جاتے تب تک ہماری اور اس ملک کے کسانوں کی جدوجہد جاری رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!