ٹاپ اسٹوریٹوءیٹر سے آوازسوشیل میڈیا سے

شرجیل امام پر نفرت انگیز میڈیا ٹرائل

سمیع اللّٰہ خان

شرجیل امام سینٹرل یونیورسٹی جے این یو کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں، وہ نظریاتی طورپر سخت اور گہرے ہیں، سوشل جسٹس اور انسانیت کے کاز پر اسلامی بنیادوں پر متحرک رہتےہیں
ایسے ایکٹو نوجوان اسکالرز کا مسلمانوں میں ہونا اچھی بات ہے
لیکن انہیں اپنی ایکٹویٹی کو منظم اور مرتب رکھنا ہوگا

وگرنہ آئے دن کام سے زیادہ ایسے ہی الجھاوے انہیں گھیر لیا کرینگے اور ان کے حوالے سے حکمران فاشسٹ جماعت کو عوام کو لڑانے اور اپنا الو سیدھا کرنے کے مواقع ملیں گے
اور فاشسٹ حکومت کو یہ موقع دینا ہماری ناکامی کہلائے گی

یہ ایک مطلق بات ہے جسے سبھی کو ملحوظ رکھنا چاہیے:
اب آئیے شرجیل امام کے موجودہ ہنگامے پر

یقینًا کسی بھی ملک مخالف اور غیر آئینی سرگرمی کا نا ہی تعاون ہوسکتاہے نا ہی اس کی حمایت کی جائے گی
لیکن سرگرمی تو بہت دور یہاں شرجیل کی بعض باتوں پر ہی میڈیا ٹرائل چل رہا ہے سوال یہ ہیکہ ملک میں کون طے کرےگا کہ کون دیش دروہی ہے؟ کس کے پاس اتھارٹی ہےکہ وہ کسی کی باتوں کو ملک مخالف ثابت کریں؟ اگر آپ میڈیا ٹرائل سے ہی کسی کو غلط ماننے لگے ہیں تو افسوسناک ہے
یہ جو میڈیا ٹرائل اس وقت ایک مسلمان نام پر ناگن ڈانس کررہاہے وہ کل جب آر ایس ایس کا ثابت شدہ دہشت گرد پربیش کمار پکڑا گیا تب کہاں سکڑ گیا تھا؟

سب سے پہلے تو یہ جانیے کہ یہ پورا ہوّا کھڑا کرنے والے دو لوگ ہیں
۱۔ سمبت پاترا __ ۲۔ ارنب گوسوامی
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے نفرت پھیلائی ہے
ماضی میں بھی انہوں نے کنہیا کمار، عمر خالد اور انربان کے خلاف ایسے ہی نفرت انگیز میڈیا ٹرائل چلایا تھا

اسی بابت دہلی کے رائٹر صحافی ثاقب سلیم صاحب لکھتے ہیں:
جب 2016 میں عمر خالد، انربان اور کنہیا کمار کو ارنب گوسوامی نے راڈار پر لیا تھا تب شرجیل امام پوری طرح آپ تینوں کے ساتھ تھا اور ہر پروٹسٹ میں متحرک تھا
آج وہی شرجیل اُسی طرح ٹارگٹ کیا جارہاہے تو ہمیں آپ لوگوں کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ۔

شرجیل امام کے نظریات پر آپ یقینًا اختلاف کرسکتےہیں، ان کی بہت ساری باتیں نظریاتی اور علمی لحاظ سے انٹلکچوئل مذاکرات کے ليے تشنہ بھی ہیں، ہم بھی اختلاف رکھتےہیں، لیکن موجودہ نفرت انگیز میڈیا ٹرائل سے اس قدر مرعوبیت کی کیا وجہ ہے ؟ جسے پوری طرح بلکہ کھلے عام، سمبت پاترا نے لانچ کیا اور ریپبلک ٹی وی نے جسے پروموٹ کر رکھا ہے
موجودہ دور میں کسی کو بھی برباد کرنے کے لیے میڈیا ٹرائل بہت مہلک ہتھیار ہے وہ ایسا ہوّا کھڑا کرتاہے کہ بڑے بڑے لوگ بہہ جاتےہیں

اگر آپ شرجیل کی صرف اتنی ہی ویڈیو دیکھتے ہیں جتنی میڈیا میں چلائی جارہی ہے تو یقینًا آپ بھی ٹرائل کے شکار ہوں گے جیسے کہ شروعات میں مجھے بھی ایسا لگ رہا تھا
لیکن مکمل دیکھنے کے بعد یہ نفرت انگیز ٹرائل کا غصہ جاتا رہتاہے

شرجیل امام کی جس ویڈیو پر ہنگامہ برپا کیا جارہاہے اس کے متعلق پٹنہ یونیورسٹی کے دلپ صاحب لکھتے ہیں:
” شرجیل امام کا ویڈیو دیکھا، اُتنا ہی دیکھا جتنا سمبت پاترا نے ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے، اسی پر ملک میں بوال مچا ہوا ہے، ایف آئی آر ہو چکی ہے، ٹی وی والوں کو پھر سے نیا ” دیش دروہی ” مل گیا ہے، اس ویڈیو میں کہی گئی باتوں میں ملک سے بغاوت کیا ہے؟
۱۔ شرجیل نے کہا کہ ۵ لاکھ منظم لوگ اگر مل جائیں تو نارتھ ایسٹ کو بھارت سے ” کَٹ ” کیا جاسکتا. اسی ” کَٹ ” کو بھارت سے الگ کرنے سے تعبیر کیا جارہاہے

۲۔ شرجیل چکّا جام کی بات کررہےہیں ویڈیو میں آگے وہ سڑکوں اور پٹریوں کی بات کررہےہیں وہ ” چکن نیک ” کی بات کررہےہیں، ” چکن نیک ” کا مطلب ہے ” سیلی گُڑا کاریڈور ” جو بھارت کے بقیه حصے اور شمال مشرقی حصے کو جوڑنے والی سب سے تنگ جگہ ہے

۳۔ چکا جام کر ” کَٹ ” کرنا دیش دروہ کب سے ہوگیا؟ شرجیل نے فیسبوک پر ایک پوسٹ بھی لکھی ہے جس میں وہ ہر شہر میں چکا جام کی اپیل کررہےہیں

یہ باتیں پٹنہ یونیورسٹی کے فاضل دلپ صاحب نے لکھی ہیں.

اور واقعی اس بات ” کَٹ کرنے ” کا جو مطلب شرجیل خود بیان کررہے کیا وہ دیش دروہی میں آسکتا ہے، مجھے تو ایسا نہیں لگتا

دوحہ قطر کے ذکی احمد لکھتے ہیں:
اُس نے (شرجیل) نے کیا کہا اور ہماری میڈیا کیا پیش کررہی ہے، میں سمجھتاہوں کہ زبردست تضاد اور بڑی غلط فہمیاں ہیں، افواہیں مت پھیلائیے، میں شرجیل امام کی حمایت کرتاہوں _

جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی سے Centre For Political Studies کے فاضل نربان رائے لکھتے ہیں:
اس (شرجیل) کی تقریر جو کہ بی جے پی آئی ٹی سیل کے ذریعے استعمال کی جارہی ہے جس کو سمبت پاترا کنٹرول کررہاہے وہ پوری طرح گمراہ کن اور غلط مفہوم کی بنیاد پر ہے

سَمبھو کے ایس لکھتے ہیں:
میں شرجیل امام کی مکمل حمايت کرتاہوں

مرزا عدنان بیگ لکھتے ہیں:
آسام کو انڈیا سے کاٹنے کا مطلب چکّا جام کرناہے اور یہ بات جان لیجیے کہ چکّا جام کیے بغیر کچھ ہونے والا نہیں ہے
شرجیل بھائی کی بات سوفیصد صحیح ہے میڈیا اور سرکار ان کو غلط پیش کررہی ہے تاکہ پھنسایا جائے

دہلی کی ایکٹوسٹ رُوچی رائے لکھتی ہیں: خیر،
میں نے بہت غور کے ساتھ شرجیل کی باتوں کو سنا، آسام کی بات اور بہار کی بات کو بھی سنا، لیکن اس دومنٹ کی ویڈیو میں بھی ابھی مجھے ایسا کچھ بھی سنائی نہیں دیا کہ وہ ملک کے خلاف بات کررہا ہو_

لکھنؤ کے متحرک سوشل ایکٹوسٹ شاہنواز صاحب لکھتے ہیں:
ہریانہ کی سڑکوں پر نکل کر جب زانی رام رحیم کے بھکتوں نے آن دی کیمرہ کہا تھا
بابا کے خلاف فیصلہ آیا تو بھارت کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینگے
بتائیے ان کے خلاف ایف آئی آر ہوا تھا؟ انہیں دیش دروہی کہا گیا؟ کیوں؟ اسلیے کہ ان میں کوئی #شرجیل_امام نہیں تھا؟

مشہور میڈیا ہاؤز عالمی سَمَے لائیو کے جرنلسٹ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فاضل امام الدین علیگ لکھتے ہیں:
شرجیل نے رتّی بھر بھی غلط نہیں بولا ہے، لوگ بلا وجہ بلبلا رہےہیں بلکہ لوگوں کو روڈ بلاک کرکے اس کی باتوں پر عمل کرناچاہئے_

جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی لیڈر اور منتخب کاؤنسلر آفرین فاطمہ لکھتی ہیں:
ڈئیر مسلمانو!
مجھے دوسروں سے بہت زیادہ امیدیں نہیں ہیں، لیکن اگر تم خود شرجیل امام کو پھینکنے جارہے ہو محض چند مفادات کے خاطر، تو میں بھی اس کے ساتھ کود جاؤں گی ہم ساتھ ساتھ ہیں
غیر معذرت خواہانہ مسلمان ہزاروں نظریات کے ساتھ ہوں، یہ گورنمنٹ کا خوف ہے، شرجیل امام کو ٹارگٹ کرنا یہ گورنمنٹ کا اسلامو فوبیا ہے_

جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی بے باک اسٹوڈنٹ لیڈر اور موجودہ عوامی تحریک کے چہروں میں سے ایک لدیدہ فرزانہ لکھتی ہیں:
یہ جو کچھ نفرتیں شرجیل امام اور شرجیل عثمانی کے خلاف چل رہی ہیں انہیں روکنے کی ضرورت ہے
میں اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ غیر مشروط کھڑی ہوں _

اسی طرح حال ہی میں جیل سے چھوٹ کر آنے والے صحافی علی سہراب نے بھی شرجیل کی حمایت کا اعلان کیا ہے

میڈیا کے نفرت انگیز ٹرائل میں شرجیل کے موضوع پر ایسی دوسرے پہلو کی آراء دبا دی گئی ہیں

دہلی کے معروف صحافی اور حقوق انسانی کے رضاکار آدتیہ مینن لکھتے ہیں:
” کوئی بندہ علیگڑھ میں بیٹھ کر آسام میں چکّا جام کرنے کی بات کر رہاہے، آپ اس کی سمجھداری پر تو سوال اٹھا سکتےہیں لیکن یہ دیش دروہ نہیں ہے، شرجیل کی تقریر غیرسنجیدہ ہوسکتی ہے لیکن یہ ملک سے بغاوت اور دیش دروہ نہیں ہے اس نے چکّا جام کرنے کے لیے کہا ہے_

یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کے ندیم خان لکھتے ہیں:
شرجیل کے بیان سے نااتفاقی تو ہوسکتی ہے لیکن جس قدر ممکن ہوگا ان کو قانونی مدد کرینگے_

دہلی ٹیلی کام انجینئر آرین شری واستو لکھتے ہیں:
شرجیل امام جوکہ شاہین باغ کے بہت سارے آرگنائزر میں سے ایک ہیں انہوں نے غیر متشدد احتجاج کی کال دی ہے سڑکوں اور ریلوے کو بند کرنے کے ذریعے
کسی بھی نتیجے میں کودنے سے پہلے اس کی پوری ویڈیو سنیے_

آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ابھی گیان گاندھی نے دہلی یونیورسٹی کی قانونی فیکلٹی کی فاضل اور مشہور ایکٹوسٹ کول پریت کور کا کالم شائع کیا ہے جو پوری طرح شرجیل کی حمایت میں ہیں اس میں وہ لکھتی ہیں:
شرجیل امام نے کوئی قانونی جرم نہیں کیا ہے ان کی گرفتاری کی ڈیمانڈ ہر اعتبار سے غلط ہے بی جے پی اور میڈیا کا ان کے خلاف ٹرائل مسلمانوں کی آواز کو نشانہ بنانے اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجات کو متاثر کرنے کے لیے ہے_

آئی آئی ٹی پیس ایجوکیشن کے پروفیسر منیش کمار لکھتے ہیں:
آپ مزید طاقتور ہوں شرجیل!
بغاوت کے مقدمے بھگت سنگھ اور بسمل پر بھی لگائے گئے تھے آپ بھی انہی کی صف میں جارہےہیں
چکا جام کرنا پروٹسٹ کا مؤثر طریقہ ہے

یہ آوازیں شرجیل امام کے متعلق ہیں جو میڈیا ٹرائل میں دبی ہوئی ہیں

اس وقت پورے ملک کا میڈیا ٹرائل شرجیل کے خلاف ہے، ایسےمیں کسی متوازن رائے تک پہنچنا دقت طلب کام ہے، میڈیا ٹرائل نے ہندوستان میں کس قدر تباہیاں پھیلائی ہیں، دہشتگردی، وطن سے غداری اور بغاوت کا لیبل چسپاں کرکے کتنے مسلم نوجوانوں کو بھیانک عقوبت خانوں میں ڈھکیلا ہے، اس کی داستان روح فرسا اور خونچکاں ہے، اگر آپکو کبھی وقت ملے تو اس بابت امیش تیواری کے بلاگ پر افتخار گیلانی کو ضرور پڑھیے گا

سمیع اللّٰہ خان

آج شرجیل، یا شرجیل عثمانی اور فیض الحسن وغیرہ کے خلاف جو خونخوار غلبہ میڈیا کے ذریعے قائم کیا جارہاہے وہ اسی قبیل سے ہے
لیکن افسوس ہے انہی لوگوں کے معیار پر جو راشٹرواد اور سیکولر واد کے غلو کے نقاد رہتےہیں لیکن خود ایسے ہی میڈیا ٹرائل کے شکار ہوجاتےہیں

ایک طرف بم بلاسٹ کرنے والے، ہندوستان کے خلاف ہندوراشٹر کا مکروہ عزم تیار کرنے والے دہشتگردوں کی عملی خونریزی کا سپورٹ کرنے والے دشمن ہیں، وہی انسانیت دشمن لوگ یہ مہم چلارہے ہیں،
اور دوسری طرف ایک نوجوان کی کچھ نادانیوں کو ان سب سے بھی خونخوار بنایا جارہاہے
یاد رکھیے کہ اگر آج شرجیل ہے تو کل کوئی اور ہوگا یہ سلسلہ دراز ہوتا رہےگا کیونکہ یہی ان کا ہتھیار ہے، آپ Defensive مت بنیے، لیکن اب تو معاملہ اس سے بھي آگے بڑھ گیا ہے مسلمانوں کا ایک جھنڈ بھی ہے جو اسے گالیاں دے رہاہے اور جیل بھیجنے کا مطالبہ کررہاہے یہ بالکل غلط رویہ ہے

قوم میں ہمیشہ مختلف مزاج اور مختلف طرزعمل ہوتےہیں ان سب کو متوازن کرنا نبیﷺ کی قیادت کے وارثین کا بنیادی وصف ہوتاہے
اگر اپنے مزاج سے غیر اپنی پالیسیوں سے غیر سمت میں کوئی نظر آرہاہے تو وہ سیدھے سیدھے ملامتی ہوجائے یہ سیرت رسولﷺ سے عطا کردہ قیادت نہیں ہے، یہ رسول اللہﷺ کی لیڈرشپ کا فارمیٹ نہیں ہوسکتا
آپکے یا میرے نزدیک کوئی کسی قدر بھی غلط ہوجائے لیکن اگر آپ مسلمان ہیں تو ایک کلمہ گو ہرحال میں اخوت اسلامی کی وابستگی کا مستحق ہے، اور اگر آپ قائد ہیں، یا لیڈر بننا چاہتےہیں تو قوم پسندی بنیادی وصف ہوناچاہئے، ان کی غلطیوں پر جزبز ہوکر مشتعل ہوجانا، کوسنے دینا اور لعنت ملامت کرنے لگنا، یہ کہیں سے بھی ہمارے اسلام اور مسلمانوں کی لیڈرشپ کا طریقہ نہیں ہے
آپ ہندوستان میں آج جس نسل کا سامنا کررہےہیں اور جسے لیکر اگلا سفر کرناہے وہ ستر سالوں سے آپ ہی کی ناکام پالیسیوں سے ہر سطح پر جھلسائی ہوئی، بکھری اور منتشر نسل ہے
ان کو اپنائیت کے ساتھ منظم اور مرتب کرکے ایک قالب میں ڈھالنے کے لیے کم از کم اور ۱۰ سال پے در پے محنت لگے گی
اس سے پہلے لعنتی اور ملامتی زبان استعمال کرنے لگنا یہ غیر پختہ اور ناپائیدار سمت کہلائے گی

میں شرجیل امام سے بہت ساری باتوں میں متفق نہیں ہوں، مجھے ان کے بعض طرزعمل سے بھی اختلاف ہے، اور اسی طرح ان سے اتفاقات بھی ہیں، میں ملک میں اور اپنی قوم میں ان کے ذریعے ایکطرف فائدے بھی دیکھتا ہوں تو دوسری طرف بعض غیر سلجھی ہوئی باتوں سے نقصانات بھی دیکھتا ہوں،

ان کی جس تقریر پر ہنگامہ برپا ہے وہ بہرحال آن دی کیمرہ، غیر حکیمانہ اور غیر مدبرانہ گفتگو ہے،
تدبیریں پبلک مقامات پر ڈیزائن نہیں کی جاتی ہیں، لیکن وہ ایسی باتیں بھی نہیں ہیں کہ انہیں خطرناک اور خونخوار بنایا جائے، جیساکہ میڈیا ٹرائل چل رہاہے، جیسے میں تو اتفاق نہیں رکھتا ہوں لیکن اسی کالم میں ہم نے کئی ایسی آراء نقل کی ہیں جن کی نظر میں شرجیل کی باتیں درست ہیں ان میں غیر مسلم اسکالرز بھی ہیں

لوگ کہہ رہےہیں کہ ان سے مطلق براءت اور علیحدگی اختیار کی جائے میں نہیں سمجھتا کہ اس کی ضرورت ہے
اور ذاتی طورپر میں کسی بھی مسلمان سے براءت نہیں کرتاہوں، البتہ فکروں اور نظریات سے اختلاف ضرور ہوتاہے
ہم سب کو آئینِ ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے، مضبوط تدبیر اور دانشمندی کے ساتھ اپنے نیک عزائم پر کام کرتے رہنا چاہیے جس کا اختیار ابھی بھی ہمیں ہے
شرجیل کا جذبہ اور قوم کے تئیں ان کی بے لوثی اور لگن سے انکار نہیں کیا جاسکتا
میری اپیل ہےکہ شرجیل کو اخلاقی اور قانونی مدد فراہم کی جائے، انہیں اس برے وقت میں اکیلا چھوڑنا بہت ہی غلط رویہ ہوگا
شرجیل امام، شرجیل عثمانی، فیض حسن، آفرین فاطمہ اور لدیدہ فرزانہ میں ان سب کو حساسیت فکر و سوز اور قوم پسندی پر سلام پیش کرتاہوں اور درخواست کرتاہوں کہ مزید مرتب اور آئینی تدبیر کریں، میں بحیثیت امتی آپ لوگوں کے ساتھ ہوں
عافیت کی دعا ہے، نیک خواہشات ہیں_

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!